شرارتی بچہ
موصوف سیاست کے میدان میں ایک ایسے شرارتی بچے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جسے قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔..
SAN FRANCISCO:
بیگم صاحبہ نے اپنے تین سالہ بیٹے کے بارے میں، اپنے شوہر سے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا ''سنیے جی! ہمارا بیٹا جب گفتگوکرتا ہے، تو یہ باتیں معصومیت سے اتنی بھرپور ہوتی ہیں اور کانوں کو اتنی بھلی لگتی ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے، لیکن بعد میں جب اس گفتگو پر غور کیا جائے تو ان باتوں کا مطلب کچھ بھی نہیں نکلتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا آپ کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا بیٹا بڑا ہو کر کیا بنے گا؟ اور کس فیلڈ میں کامیاب رہے گا؟'' شوہر نے ایک لمحہ سوچنے کے بعد کہا ۔''بیگم ابھی بتاتا ہوں'' پھر اس نے جیب سے ایک چمکدار پانچ روپے کا سکہ نکالا اور سو روپے کا ایک میلا کچیلا نوٹ بھی برآمد کیا اور دونوں چیزیں منے کے سامنے رکھتے ہوئے بولا ''بیٹا ان دونوں چیزوں میں سے تم کون سی چیز لینا پسند کرو گے؟'' منے نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا '' ابو یہ پانچ کا سکہ اس سو روپے کے نوٹ میں لپیٹ کر میرے حوالے کر دو۔'' شوہر منے کا یہ جواب سن کر اچھل پڑا اور اپنی بیگم سے مخاطب ہو کر بولا '' بیگم ! پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور خوش ہو جاؤ کیونکہ ہمارا بیٹا بڑا ہو کر ایک کامیاب سیاستدان بنے گا۔''
ہمارے یہاں کامیاب سیاستدان اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو سوال کو انتہائی غور سے سنے اور جب اس سوال کا جواب دے تو، جواب کا سوال سے کوئی تعلق ہی نہ بنتا ہو۔ لیکن سننے والے سر دھننے پر مجبور ہو جائیں اور ان کی دلچسپی بھی برقرار رہے۔ یعنی سیاستدان کی باتیں منے کی باتوں کی طرح کانوں کو بھلی بھی لگیں اور جب بعد میں اس گفتگو پر غور کیا جائے تو ان باتوں کا مطلب ٹائیں ٹائیں فش کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک معروف سیاستدان بھی ہیں۔ یہ جب چاہیں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کر دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سننے والا بور نہیں ہوتا ہے۔ موصوف نیوز چینلز پر ہاٹ کیک ہیں ان کا چہرہ دیکھتے ہی ناظر ریموٹ ایک طرف رکھ کر ان کی گفتگو میں محو ہو جاتا ہے اور شو ختم ہونے کے بعد یہی سوچتا ہے کہ آخر اس ساری گفتگو کا مطلب کیا تھا؟ مطلب کچھ تھا بھی یا نہیں؟ لیکن اس کے باوجود وہ اگلا پروگرام دیکھنا نہیں بھولتا۔
ابھی پچھلے دنوں ان سے ایک سوال ''کھیت'' کے بارے میںکیا گیا جواب میں انھوں نے ''کھلیان'' کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ''سنیں جی ابھی پچھلے دنوں ایک خاتون نے اپنے دو بچوں کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا کیونکہ وہ ان کا پیٹ نہیں بھر سکتی تھی۔ مجھے بتائیں اس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ کیا ملک اور حکومتیں ایسے چلتی ہیں؟'' جواب سن کر کمپئیر صاحب سٹ پٹا گئے ۔ اور یہ بھی بھول گئے کہ موصوف جب وزیر تھے تو ان کے دور حکومت میں پانچ پانچ بچوں سمیت ان کی مائیں دریاؤں میں چھلانگ لگا کر زندگی کی قید سے خود کو آزاد کروا چکی تھیں۔ تقریباً ہر ماہ کوئی نہ کوئی بیمار یا غریب آدمی مینار پاکستان سے چھلانگ لگا کر ان کی حکومت کو '' خراج تحسین '' پیش کیا کرتا تھا۔ آج موصوف لال مسجد کے سانحے سے خود کو بری الزمہ قرار دیکر فرماتے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالا جا سکتا تھا، لیکن ان کی جیب سے استعفیٰ اس لیے نہیں نکل سکا تھا کیونکہ ان کے حلقے کے ووٹرز کے مسائل پھر کس طرح حل ہوتے؟ لہذا یہ مجبوراً آمر کا ساتھ دیتے رہے۔ اور ان کے ووٹرز مسلم لیگ ن کی طرف دیکھتے رہے۔
2002ء کے الیکشن میں ان صاحب نے اعلان کیا کہ پنڈی کی دونوں سیٹیں میاں صاحب کی امانت ہیں، جو میں جیت کر میاں صاحب کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ان کی انتخابی مہم میں '' چار چاند '' لگ گئے۔ لیکن انھوں نے یہ دونوں نشستیں جیت کر پرویز مشرف کے قدموں میں رکھ کر وفاقی وزرات حاصل کر لی۔ ضمنی الیکشن میں ہی علاقے کے عوام نے ایک نشست واپس لے کر انھیں واضح پیغام دے دیا۔ موصوف اس پیغام کو سمجھ نہ پائے، حالانکہ انڈوں کی ٹوکری ٹوٹنے پر سمجھ سکتے تھے کہ ان کے محل دو محلے اور مویشیوں کا فارم ہاؤس ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ موصوف چونکہ خیالی باتیں کرنے میں کافی آگے کی چیز ہیں لہذا وہ انڈے ٹوٹنے کے بعد انڈوں کے چھلکوں اور زردی سفیدی سے شیمپو بنانے کی انڈسٹری کے قیام پر غور کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بچی کھچی ایک نشست سے بھی میاں صاحب کے ایکٰ کارکن کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو گئے۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ وہ بے مزہ پھر بھی نہ ہوئے اور یہی ہمارے یہاں ایک سیاستدان کی سادہ سی تعریف ہے کہ سیاستدان سیاست کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل جاری رکھتا ہے۔
لہذا موصوف نے نہ جانے کس طرح گھیر گھار کر عمران خان کو شیشے میں اتارا اور اب وہ پھر سے پارلیمنٹ میں موجود ہیں، اور اپنی ذاتی سیاسی جماعت کے سربراہ الگ ہیں ۔ ان کی باتیں کانوں کو بدستور بھلی بھی لگ رہی ہیں عوام ان کی باتیں سن رہے ہیں اور سر دھن رہے ہیں ۔ وہ آج بھی موقع کے منتظر ہیں کہ انھیں سو روپے کا میلا کچیلا نوٹ آفر ہو یا پانچ روپے کا چمکدار سکہ یا پھر دونوں کی آفر آ جائے ۔ انکار کرنا ان کی سرشت میں شامل ہی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی آفر کہیں سے آ ہی نہیں رہی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ عمران خان ہوں، میاں صاحب یا پھر زرداری یہ تینوں حضرات موصوف کے عوامی اسٹائل سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی سیاسی جماعت خود تشکیل دینا پڑی۔ بالکل نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی طرح کہ بھلے ان کی پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہہ کر پکارا جائے لیکن نواب زادہ صاحب کی طرح پوری سیاسی جماعت انھی کی ذات پر مشتمل تھی۔
موصوف سیاست کے میدان میں ایک ایسے شرارتی بچے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جسے قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ بچے کے گاؤں میں سیلاب کی آمد کا جب امکان قوی ہو گیا تو بچے کے گھر والے، گاؤں والوں کے مشورے سے اسے دور دراز کے گاؤں میں اپنے رشتے داروں کے گھر بھجوا دیتے ہیں کہ کہیں بچہ اپنی شرارتوں کے باعث گاؤں کے لیے اور خود اپنے لیے ہی خطرے کا باعث نہ بن جائے۔ ایک ہفتے بعد ہی جس گاؤں میں بچہ موجود ہوتا ہے، وہاں سے ٹیلی گرام آتا ہے کہ ''بچے کو برائے مہربانی واپس لے جائیں اور اس کے بدلے میں سیلاب کو یہاں بھیج دیں ۔''