مادرِعلمی جامعہ سرسید



سوائے تاریخ سازانسانوں کے عام آدمی میں اگر کوئی بات ہے تویہ ہے کہ وہ بے مقدارہے،اگرچہ وہ ایک ذرہ ہے مگرگزرتے ہوئے وقت کاوہ بھی ایک آئینہ ہے۔

ہرشخص اس عالمِ انسانی کی ایک مخصوص شہادت ہے اوریہی پیمانہ جو عام سے عام آدمی کی زندگی اوراس کے گذرے ہوئے لمحوں میں حکیمانہ اور فلسفیانہ دل چسپی پیدا کرتا ہے۔میری زندگی میں آنے والی تمام علمی درسگاہوں میں جامعہ سرسید اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔

زندگی کے اس پھیلاؤمیںگذرے ہوئے کچھ لمحے ایسے نایاب ہوتے ہیں جیسے اندھیری راتوں میں اڑتا ہوا جگنوؤں کا قافلہ جو لمحہ لمحہ روشنی بکھیرتادور تک یادوں کو منور کرتاچلا جاتاہے۔

ایک ایسے دورمیںجب تعلیم کا شعبہ کاروباری ذہنیت کا شکار ہو کر تقریبا روبہ زوال ہوچکاہے ، طالبعلموں اور اساتذہ کے مقدس رشتوں میں نامعلوم دوریاں پیدا ہوچکی ہیں ایسے میں ان ہستیوں کی یاد سرمایہ حیات محسوس ہوتی ہے جن کے دم سے مجھ جیسے بہت سے طالبعلموں نے زندگی میں آگئے بڑھنا سیکھا۔پرخلوص شخصیات کی قربت بھی کیسی انمول نعمت خداوندی ہے یہ صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیںجن کو قدرت نے یہ عظیم موقع عطافرمایا۔ مجھے اپنے انجینئرنگ کے اساتذہ اور ساتھیوں کویاد کرتے ہوئے بے انتہا خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ان کے فیض اوران کی رفاقت سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا۔

آٹھ اکتوبر 1993 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈبوائزایسوسی ایشن کی کاوش سے جس کے روحِ رواںسابق ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے ظلِ احمد نظامی اور واٹر بورڈ کے سابق ایم ڈی ذاکر علی خان اور ان کے رفقاء کی مثالی جدوجہد کے نتیجے میں ہماری مادرعلمی سرسید یونیورسٹی کا وجود منظر عام پر آیا۔

اس جامعہ کا نام سر سید اس لیے رکھا گیا کہ مسلمانانِ ہند کے مصلح سرسید احمد خان کو خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کے افکار،تعلیمات و نظریات کو آگئے بڑھانا مقصود تھاان کے گہوارے کے پھولوں کا۔اس کے بانی چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی اولڈبوائز کے صدر زیڈاے نظامی بنے،وائس چانسلر ڈاکڑ سیدنذیر احمد مقرر ہوئے اور اولڈبوائز کے طویل جنرل سیکریٹری ذاکر علی خان نے ایک طویل عرصے تک سرسیدکے افکار پر قائم اس عظیم ادارے کی خدمت کی اور اس سے بہترین خطوط پر استوار کیا۔

17؍ ستمبر 1995 کو سندھ اسمبلی نے اس کے چارٹر کی منظوری کی توثیق کی ،اس وقت حکیم محمد سعید گورنر سندھ کے منصب پر فائز تھے جو علم سے بہت زیادہ رغبت رکھتے اور نوجوانانِ پاکستان کی فلاح اور بہتری کے لیے ہمیشہ پر عزم رہتے۔

نظامی صاحب نے اپنی وفات تک اس جامعہ کا نظم ونسق بہترین انداز میں چلایاکبھی امتحانات،سمسٹر کی درس و تدریس یا نتائج کانوکیشن میں کسی قسم کا تعطل نہ آنے دیا یا جامعہ کی حدود میں کوئی بدمزگی نہ ہونے پائی۔ڈاکٹر انعام الحق، ڈاکٹر ترمذی، ڈاکٹر عابدکریم ، اطہر محبوب اور دیگر لائق اساتذہ ایک طویل عرصے تک اس عظیم ادارے سے وابستہ رہے۔

ہمارے بائیومیڈیکل انجینئرنگ شعبے کے بانی چیئرمین نسیم الحسن جنجوعہ تھے دیگر قابل ِ احترام استادوں میں ڈاکٹر شہناز ، مسز رابعہ صدیقی،اقبال بھٹی ،خلیل انصاری،جمیل ،ڈاکٹرشاہد قریشی،مختار صاحب، ڈاکٹر عظیم، ڈاکٹر پرویز ، ڈاکٹر حلیم،قدوسی صاحب اور دیگر انتہائی لائق اساتذہ سے ہم مستفیدہوئے۔

ہمارے سب اساتذہ روشن ستاروں کی چمک کی مانند ہیں جو بہترین تعلیم و تربیت کی فکر میں ہمیشہ رہے۔جامعہ کے اساتذہ کا رویہ سب سے بڑھ کر اس باہمی عمل اور میل جول کی تہذیب کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ میرے نزدیک جامعہ کا یہی زمانہ جس میں جامعہ نے اپنے نصب العین اور اقدار کو جس خوبی سے نبھایاوہ ایک یادگارہے۔جامعہ سرسید کی مخصوص اقدار اور ثقافت ہے جوجامعہ علی گڑھ کا آئینہ ہے۔

سرسید نے تعلیم کو کبھی کاروبار بننے نہیں دیا بلکہ ان کے افکار میں ان کے نظریات میں ہمیشہ مقدار نہیں معیار رہاجو ان کی علم سے غیر معمولی محبت اور بالغ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور دور حاضر کے تمام پوشیدہ تعلیمی مسائل کا حل بھی اسی میں پنہاں ہے اور یہی نظریہ قوم کو ایک دعوت فکر بھی دے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس اعلیٰ اور ارفع علمی ادارے کے طالبعلم قیامِ پاکستان کے بعد اپنی قابلیت کی وجہ سے جہاں جہاں بھی فائز ہوئے انھوں نے کبھی کسی تفرقے کو فروغ نہیں دیا نہ کبھی کوئی گروپ بندی کی بلکہ اپنے اعلیٰ اقدار کو اپنے عمل کے ذریعے ہر فرقے پر اجاگر کرکے خوب داد سمیٹی اور یہی وہ اساس ہے جو سرسید یونیورسٹی کے قیام کی بنیاد بنی ۔میرے لیے یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ میرے خاندان کے سربراہ برصغیر پاک و ہند کے ریاضی دان و ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹراللہ بخش کمالی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گولڈمیڈلسٹ رہے جن کا نام وہاں کے میناروں پر سنہری حروف میں لکھا گیا۔

شائستگی اور تہذیب نے جامعہ سرسید کی ہر دور میں پاسبانی کی۔جدید طرزکی لائبریری کمپیوٹرلیب سے آراستہ ہے ہماری جامعہ۔ذریعہ تعلیم کا تعلق اداروں اور تعلیمی نظام سے نہیں ہوتابلکہ اس کا تعلق مملکت کی سرکاری زبان سے ہے،جس مملکت کی جو سرکاری زبان ہوگی اسی میں تعلیم کا حصول زندگی کی کشمکش میں فیصلہ کن معاون ہوتا ہے۔

اچھے مخلص ساتھی بھی رب کا ایک خاص تحفہ ہوتے ہیں،آپ سب اچھے دوستوں کی رفاقت کی جستجو کیجیے گا۔آخر میں، میں چانسلر جامعہ سرسید جاویدانوار ،سیکریٹری جنرل ارشد خان،وائس چانسلر ڈاکٹر ولی،چانسلر کے مشیر جناب سراج خلجی اور ان کے رفقاء کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں جامعہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نئی کامیابیوں کی طرف گامزن کرنے کے لیے اور دعا گو ہوں کہ خدائے بزرگ ان کو ہمت ،صحت ان کی عمروں میں برکت عطا فرمائے تاکہ وہ جامعہ کو اور آگئے سے آگئے لے کر جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں