ہر بات شیئر کرنے کی نہیں فیس بُک اپ ڈیٹ 80000 ڈالر سے محروم کرگئی

امریکی لڑکی کی مقدمہ جیتنے کی اطلاع فیس بک لانا اس کے خاندان کو منہگا پڑگیا۔


غزالہ عامر March 25, 2014
امریکی لڑکی کی مقدمہ جیتنے کی اطلاع فیس بک لانا اس کے خاندان کو منہگا پڑگیا۔ فوٹو : فائل

دورحاضر میں سوشل میڈیا ہی لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے لیے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ رابطے کا ذریعہ رہ گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے نوجوان ایک دوسرے کو اپنی سرگرمیوں اور مستقبل کے ارادوں سے متعلق باخبر رکھتے ہیں، مگر کبھی کبھی یہ عمل منہگا بھی پڑجاتا ہے جیسا کہ امریکی ریاست میامی میں رہنے والی ڈینا اور اس کی فیملی کے ساتھ ہوا۔ فیس بُک پر ڈینا کی جانب سے کی گئی ایک اپ ڈیٹ اس کے خاندان کو 80000 ڈالر کا جھٹکا دے گئی۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ڈینا کے والد پیٹرک اسنے برسوں سے گلیور پریپریٹری اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ 2010ء میں ان کا معاہدہ ختم ہوگیا جس کی اسکول کی انتظامیہ نے تجدید نہیں کی۔ اس کا موقف تھا کہ پیٹرک کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اور انھیں اب مزید اس عہدے پر نہیں رکھا جاسکتا۔ 69 سالہ پیٹرک نے عمر کی بنیاد پر امتیاز برتنے کے خلاف نومبر 2011ء میں اسکول کی انتظامیہ پر مقدمہ دائر کردیا۔ کئی ماہ کی سماعت کے بعد عدالت نے پیٹرک کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اسکول کے مالکان کو حکم دیا تھا کہ وہ پیٹرک کو بہ طور ہرجانہ 80000ڈالر ادا کریں۔ عدالتی فیصلے میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ دونوں فریق اس کیس کی کوئی تفصیل اُجاگر نہیں کریں گے اور نہ ہی عوامی سطح پر اس کے بارے میں بات چیت کریں گے، مگر پیٹرک کی نوجوان بیٹی ڈینا جو اب بوسٹن کالج کی طالبہ ہے، سے یہ خوشی ' ہضم' نہ ہوسکی اور اس نے اپنے فیس بُک پیج پر یہ اپ ڈیٹ کردی،''مام اور پاپا گلیور کے خلاف مقدمہ جیت گئے ہیں۔ اور اب ان گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے یورپ کے تفریحی دورے کے اخراجات گلیور ادا کرے گا۔''



ڈینا کے فیس بُک پر 1200 دوست ہیں۔ ان میں سے کچھ گلیور اسکول کے طالب علم رہ چکے ہیں اور کچھ اب بھی اس ادارے میں زیرتعلیم ہیں۔ ان سے ہوتے ہوتے یہ خبر اسکول کے وکلاء تک بھی پہنچ گئی۔ ڈینا کی اپ ڈیٹ کو بنیاد بناتے ہوئے انھوں نے عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔ عدالت نے ان کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے فیصلہ دیا کہ اس کے اس اقدام سے رازداری کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے، لہٰذا عدالت گلیور اسکول کو ہرجانے کی ادائیگی سے بری الذمہ قرار دیتی ہے۔

پیٹرک نے عدالت سے کہا کہ نفسیاتی دباؤ کے زیراثر اسے اپنی بیٹی کو اس فیصلے سے آگاہ کرنا پڑا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ میں مقدمہ لڑرہا ہوں، چناں چہ اسے کچھ نہ کچھ بتانا ضروری تھا۔ تاہم عدالت نے اسنے کے موقف کو رد کرتے ہوئے اپنے فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اسنے فلوریڈا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتا ہے مگر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے بعد اس امر کے امکانات محدود ہیں کہ سپریم کورٹ ماتحت عدلیہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ پیٹرک کے حق میں کردے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔