بھارت ٹوٹ کر بکھر جائے گا


Shabbir Ahmed Arman September 30, 2022
[email protected]

نام نہاد دانشوروں کو ناز ہے کہ بھارت ایک مضبوط ملک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک بھارت ٹوٹ پھو ٹ کے مرحلے سے گزر رہا ہے ۔ بھارت میں مختلف علیحدگی پسند تنظیمیں کام کررہی ہیں۔

18ستمبر 2022کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں خالصتان ریفرنڈم میں 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹ ڈالا۔ رش اور ٹریفک جام کے باعث ہزاروں افراد پولنگ میں حصہ نہ لے سکے۔ اس موقع پر سکھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ '' ٹورنٹو کے بعد کینیڈا کے دیگر شہروں میں بھی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ سکھوں کی اتنی بڑی تعداد کا ریفرنڈم میں حصہ لینے سے بھارت کو سکھوں کی سوچ کا اندازہ ہوجانا چاہیے، سکھوں نے ووٹ ڈال کر بھارت سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔

اس سے قبل برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں سکھ کمیونٹی ریفرنڈم کے ذریعے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ بھارت کی جانب سے ٹورنٹو میں خالصتان ریفرنڈم رکوانے کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ کینیڈین حکومت نے واضح کردیا تھا کہ لوگوں کو آزادی اظہار کی اجازت ہے اور خالصتان ریفرنڈم کو روکا نہیں جاسکتا۔

تحریکِ خالصتان ، سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو ، بھارت سے الگ کرکے ایک آزاد ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو اسٹارکر کے اس تحریک کو کچل ڈالا۔

1947میں ہونے والی تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہنے والے سکھوں کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا، کیونکہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ تقسیم کے وقت اپنے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کرسکے ، لیکن تقسیم نے انھیں ان کے گھروں ، زمینوں سے محروم کردیا۔

سکھوں کے لیے الگ ریاست کے مطالبے کو حکومت ہند نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ان تمام عوامل نے سکھوں کے غصے کو مزید بڑھا کر دونوں مذاہب (سکھوں اور ہندوؤں) کے درمیان سیاسی مخاصمت پیدا کردی ، جس کے نتیجے میں متعدد پُر تشدد واقعات بھی ہوئے۔ اسی دور میں جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالا سکھوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے اور علیحدہ ریاست کے لیے کوششیں شروع کیں۔

1983میں جرنیل سنگھ اور اُن کے ساتھیوں نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے لی، جس کے بعد بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل کو اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے اور عسکریت پسندوں، مطلوب مجرموں کی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے کارروائی کا فیصلہ کیا۔ جون 1984میں اندرا گاندھی نے متنازعہ '' آپریشن بلیو اسٹار'' کی منظوری دی۔ گولڈن ٹیمپل پر سرکاری سرپرستی میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں نہ صرف سکھوں کے اس مقدس مقام اور تاریخی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ، بلکہ کافی جانی نقصان بھی ہوا۔ اپنے مقدس مقام کی بے حرمتی نے سکھوں کو مشتعل کردیا۔

یہی بات اس سانحہ کے چار ماہ بعد31اکتوبر1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کا محرک بنی، جنھوں نے دانستہ طور پر سکھ عقائد کی بے حرمتی اور مقدس مقام پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اسی بات نے اندرا گاندھی کے سکھ محافظوں کو انھیں قتل کرنے پر مجبور کیا۔

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھ مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔ بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق چار دن جاری ہونے والے ان پر تشدد واقعات میں2700 سکھ قتل کیے گئے، لیکن اخبارات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس بلوے میں قتل ہونے والے سکھوں کی تعداد دس ہزار سے 17ہزار کے درمیان ہے۔ سکھ کمیونٹی تاحال اس قتل عام کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر کشیدہ خاطر ہے۔ کینیڈا میں مقیم سکھوں پر یہ الزام بھی لگا کہ انھوں نے بھارتی مسافر طیارہ اغوا کر کے تباہ کر دیا۔

موجودہ دور میں بی جے پی کی حکومت میں سکھوں پر مظالم اور بڑھ گئے ہیں مودی حکومت نے مشرقی پنجاب کے سکھ کسانوں پر نئے قانون کے ذریعے ان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی ، دوسری جانب اب سکھ قوم کے نوجوان آزادی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں آزاد خالصتان سکھ قوم کا مقدر ہوگا۔

اسی طرح تحریک آزادی کشمیر بھی تمام تر بھارتی ریاستی ظلم و ستم اور بھارتی فوجیوں کی دہشت گردی کے باوجود آزادی حاصل کرنے کے قریب تر ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری عوام اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے استصواب رائے کے منتظر ہیں۔ ریاست جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا کل رقبہ 85806 مربع میل ہے جو اس وقت چار حصوں میں منقسم ہے۔

ایک حصہ جسے '' آزاد کشمیر'' کا نام دیا گیا ہے ، دوسرا گلگت بلتستان، یہ دونوں پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ تیسرا اور سب سے بڑا حصہ جموں اور سری نگر بھارت کے قبضے میں ہے جب کہ چوتھا حصہ جو کہ اقصائی چن کا علاقہ ہے وہ 1962جنگ میں چین نے بھارت سے چھین لیا اور1335مربع میل چائنہ کے پاس بطور امانت ہے جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا اسی دن یہ علاقے بھی کشمیر میں شامل کر دیے جائیں گے۔

3 جون 1947کو تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہوگا۔

اقوام متحدہ اس ضمن میں متعدد بار قراردادیں منظور کرچکی ہے لیکن بھارت ہر بار فرار کا راستہ اختیار کرتا رہا ہے ، جب کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان و بھارت کے مابین جنگیں بھی ہوئی ہیں اور خود کشمیری عوام بھارت کی جبرا قبضے سے آزادی کی جنگ لڑتے آرہے ہیں جو اب تک جاری ہے جس میں اب تک لاکھوں کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جب کہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ، جب کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کو عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور باقی بڑی اہم عالمی تنظیموں نے مقبوضہ جموںو کشمیر کے حق آزادی کو تسلیم کیا ہے ، اور اس سلسلے میںاپنی ثالثی کی پیش کی ہے، لیکن بھارت کشمیریوں کی اس نعرے سے خوفزدہ ہے کہ '' کشمیر بنے گا پاکستان۔''

جموں کشمیر کے لوگ اپنی بہترین صلاحیتوں کے باعت جموں کشمیر،انڈیا،پاکستان اور بیرون ممالک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔اور مختلف شعبہ زندگی میں اپنی صلاحتیوں کے جوہر دیکھا رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ اپنے طور جموں کشمیر کی تحریک آزادی کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر حصہ ڈال رہے ہیں۔

تحریک آزادی کو کمزور کرنے کے لیے 5 اگست 2019کو بھارت نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا۔متنازع علاقے کو اپنا علاقہ لکھ دیا - لیکن اس کے بعد تحریک آزادی مذید شدید ہو گئی ہے۔عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بھارت نے پوری وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور موبائل کنیکشن بند اور مقامی سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔ گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بے گناہ نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں