سائنس میں سچائی کا بحران اور قومی ادویہ سازی

علم و تحقیق کی ترویج کو زیر زمین بنکر میں قید کردیا گیا ہے


ڈاکٹر عبید علی September 29, 2022
سائنس کے نام پر صرف طاقت حاصل کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

جامعات غبار کے نرغے میں گفتگو سنتی ہیں۔ کتنے مقالے شائع ہوئے؟ مقالے شائع کروائیں، ترقی ہوگی، انعام ملے گا، پیسے ملیں گے۔ یہ تھا پرویز مشرف کے زمانے میں متعارف کروایا گیا نظام۔

بازار سجایا جاچکا تھا۔ ریس لگ گئی۔ چھاپے خانے کھل گئے۔ دھڑا دھڑ مقالے شائع ہونے لگے۔ مطلب سے لاپرواہ اور سچائی سے بے بہرہ اشاعت نے بام عروج پایا۔ نت نئی پروڈکٹ بازار میں آنے لگیں۔ این ٹی ایس کا شطرنج بچھایا گیا۔ پیسوں کی ریل پیل تھی۔ غریب کےلیے اعلیٰ تعلیم کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ذہین کو چھانٹ کر حصول علم سے محروم کیا گیا۔ جامعات کے اساتذہ میں سیاست کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ طلبا کو جنگی قیدیوں جتنے حقوق تک محدود کیا گیا۔ اب اعلیٰ نشستوں پر فائز چائے کی میز پر گفتگو اور منصوبہ بندی کچھ یوں تھی۔ ''اپنا بچہ ہے، فرمانبردار ہے، ڈگری دے دو۔ بےوقوف ہے، کمزور ہے، لیکچرار لگادو، پڑھانا اور تحقیق کیا اس سے سیاست کروائیں گے۔''

سائنس سچائی سے کہیں دور ہوتی گئی۔ سائنس کے نام پر صرف طاقت حاصل کی گئی۔ سینوں پر تمغے سجائے گئے۔ جہالت کا جشن منانے کا رواج قائم ہوا۔ خوشامد کو ترقی ملی۔ اہل خیال کے ستارے پاکستان کے مدار میں گردش میں قید رہے۔ اب بوسیدہ مفلوج نظام شاہراہ علم کو جنگل بنا کر اس پر راج کر رہا ہے۔ عزت و غیرت سے مکمل عاری شہنشاہوں نے علم و تحقیق کی ترویج کو زیر زمین بنکر میں قید کردیا ہے۔ قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے والوں اور اخبار و ٹی وی پر آنے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ ان کے دعووں کا کیا ہوا؟ ان وعدوں کا کیا ہوا؟ قومی پیسوں کا کیا ہوا؟ بچوں کا کیا ہوا؟ ہمارے مستقبل کا کیا ہوا؟

ادویہ سازی میں کوالٹی کلیدی کردار رکھتی ہے۔ کوالٹی مینجمنٹ سسٹم کبھی بھی پختہ اور پائیدار نہیں ہوسکتا، جب تک اس کی قیادت شعور کی بلندی اور پختہ سوچ کی حامل نہ ہو۔ ایک کلیہ سب کےلیے یا ایک لاٹھی سے سب کو ہانکنا شعور کی پستی کی علامت اور تنزلی کی ضمانت ہے۔ بدقسمتی گردانیں کہ سماج میں دستیاب تکنیکی صلاحیت اتنی پختہ نظر نہیں آتی کہ وہ ادویہ سازی کے عالمی خواب کا تعاقب کرسکے۔ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے تجربے سے کتنا سیکھتے ہیں۔ تجربے کو ناپنا پیچیدہ ہے جب کہ اس تجربے سے سیکھنے کو قدر و قیمت میں تولا جاسکتا ہے۔ خاصیت (کوالٹی) کا تعلق شعور سے جبکہ مقدار (کوانٹیٹی) کا تعلق میٹریل سے ہے۔ میٹریل کو قابو میں رکھ کر کوالٹی کی یقین دہانی کرانا ہی اس کا کھیل ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بچے ہماری ناکامی کے اسباب تلاش کریں گے۔ وہ نامعقولیت میں پیوستہ افراتفری کا تعاقب کریں گے۔ وہ سوچیں گے کہ یہ تین بیچ پر شیلف لائف کیسے طے کی جاتی ہے۔ کیا ہر پروڈکٹ کی پیچیدگی تین بیچ سے نتائج کی یقین دہانی کرسکتی ہے۔ وہ یہ دیکھیں گے کہ دس فیصد کو آزمائشی بیچ کیوں سمجھا جاتا ہے۔ وہ چھوٹا بیچ کیسے بڑے پیمانے پر صحیح نتائج دینے کی مستقل صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی منفرد پیچیدگیاں اس دعوے اور وعدے سے کتنی ہم آہنگ ہیں۔ کیا اور کیسے؟ کس طریقہ کار سے؟ کس بنیاد پر؟ کس اصول پر؟ کل کی شرمندگی ہماری قسمت ہے۔ آئیے کوشش کرکے قسمت بدلتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔