لندن میں ہرے دھنیے کی تلاش
لندن، جسے ہم کسی زمانے میں ولایت کہا کرتے تھے، خوب شہر ہے۔ یہاں کے بازاروں میں ہفت اقلیم کا مال مہیا ہے۔
لندن، جسے ہم کسی زمانے میں ولایت کہا کرتے تھے، خوب شہر ہے۔ یہاں کے بازاروں میں ہفت اقلیم کا مال مہیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کا بھی کیسا کیسا نایاب مال وہاں کے عجائب گھروں اور کتب خانوں میں سجا نظر آتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ مال جس کا ذکر علامہ اقبالؔ نے کیا ہے کہ؎
مگر وہ علم کے موتی' کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
بس ایک چیز یہاں نایاب ہے۔ وہ ہے ہرا دھنیا ۔ پاکستان کی اس نیک بی بی نے، جن کا نام راشدہ علوی ہے، لندن میں اپنے آباد ہونے کی جو داستان رقم کی ہے اس کا عنوان یہی ہے... ہرا دھنیا۔ اسی عنوان سے ان کی یہ کتاب شایع ہوئی ہے۔ لندن کے بازاروں میں گھوم پھر کر انھوں نے کیسا کیسا نایاب مال، جو ہندوستان پاکستان میں عام ہے مگر لندن میں نایاب ہے، کسی نہ کسی طور ڈھونڈ نکالا۔ دیگچیاں' کڑاہیاں' پیاز کاٹنے کی مشین' حلال گوشت' سب سے بڑھ کر توا۔ کہتی ہیں کہ روٹی پکانے کا توا تو جوئے شیر ہی بن گیا۔'' مگر اسے بھی ڈھونڈ نکالا۔ جس شے کے لیے لندن کے بازار تلپٹ کر ڈالے وہ تھا ہرا دھنیا۔ خیر ہرا دھنیا تو اس شے کا جنرک نام ہے۔ ویسے تو ہم اس کوتھمیر کہتے تھے۔ تو لندن میں جو شے عنقا ہے وہ ہے کوتھمیر۔
راشدہ علوی کی داستان لندن کوتھمیر کی تلاش سے شروع ہوتی ہے اور پولیٹکل اسائلم یعنی سیاسی پناہ کے ذکر پر ختم ہوتی ہے۔ اس بیچ اور کتنے مراحل آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ؎
ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں
اس شہر میں آباد ہونے کے لیے کیا کیا کشٹ کھینچنے پڑتے ہیں۔ راشدہ علوی کو تو صرف گھرداری کے مسائل درپیش تھے۔ ان سے وہ کس طرح نبرد آزما ہوئیں اور کیسے وہ مراحل طے کیے۔ بس یوں سمجھئے کہ ''اچھے خاصے ہفت خواں سے گزرنا پڑا۔ کوتھمیر تو بعد کی بات ہے۔ ہنڈیا پکے گی تب کوتھمیر کُتر کر اس میں ڈالا جائے گا۔ اور ہنڈیا تب پکے گی جب گوشت مہیا ہو۔ یعنی حلال گوشت۔ تلاش بسیار کے بعد ایک یہودی قصاب کا پتہ ملا۔ اس سے بکرے کی ران مانگی۔ پتہ چلا کہ ران کا گوشت یہودیوں کے دین میں حرام ہے۔ اس نے ران کے گوشت کے سلسلہ میں تو معذرت کر لی۔ ہاں ران کے گوشت کے نقصانات پر ایک پورا لیکچر پلا دیا۔
اردگرد نظر ڈالی تو اور نقشے نظر آئے۔ آباد کاروں میں مسلمانوں کا طور سب سے الگ نظر آیا۔ لڑکے پڑھنے کے شوقین نہیں' لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہیں' تلاش معاش کے بجائے بیکاری الاؤنس لینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بچوں کو لولا لنگڑا ظاہر کر کے امداد حاصل کرنے کی صورت پیدا کی جاتی ہے۔ اللہ واسطے اس خیرات سے حج کر آتے ہیں۔ دیگیں پکا کر داتا دربار میں چڑھا آتے ہیں۔پیشوں میں ایک پیشہ اسمگلنگ۔ جاننے والوں میں سے ایک نوجوان کا ذکر کیا۔ کل تک نکھٹو تھے۔ اب یہ شان کہ بر میں شاندار سوٹ' انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی' پیروں میں مگر مچھ کی کھال کے قیمتی جوتے۔ حیران ہو کر پوچھا ''برخوردار کیا کر رہے ہو آجکل۔'' برخوردار نے سادگی سے جواب دیا ''آنٹی'' ہیروئن اسمگل کرتا ہوں۔ اس پیشہ پر تھوڑی تشویش کا اظہار کیا تو اس نے ایک مذہبی شخصیت کا حوالہ دیا کہ ان کے لیے کام کر رہا ہوں۔ایک پاکستانی لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ جیل میں مسلمان عورتوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ مسلمان عورتیں جیل میں کس خوشی میں' جواب ملا کہ ہیروئن کی اسمگلنگ میں پکڑی گئی ہیں۔ اب سزا بھگت رہی ہیں۔ پھر بھی خوش ہیں یہ سوچ کر کہ جیل کے دن کسی صورت کٹ ہی جائیں گے۔ اس کے بعد اس طور کمائی ہوئی دولت کے بل پر اچھی گزرے گی۔
مشاعروں کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ شروع شروع میں تو ہر لولا لنگڑا شاعر ادب سے سنا گیا۔ رفتہ رفتہ نامی گرامی شاعروں کی آمد ہوئی۔ یہ محفلیں گھروں میں سجائی گئیں۔ مقبولیت کا یہ حال کہ جسے چاندنی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کی جگہ نہ ملی، وہ جوتیوں کے بیچ جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔
راشدہ علوی کا کہنا ہے کہ لندن میں مشاعروں کی طرح اصل میں راجہ صاحب محمود آباد نے ڈالی تھی۔ 1970ء میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے پہلے صدر تھے راجہ صاحب محمود آباد۔ تین سال بعد پروفیسر رالف صدر چنے گئے۔ ادھر 1982ء میں بی سی سی آئی کے زیر سایہ اردو مرکز قائم ہوا۔ افتخار عارف اس کے انچارج مقرر ہوئے۔ وہ ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اب مشاعرے بھی وہیں ہونے لگے۔ لیکن جب بی سی سی آئی کی بساط الٹ گئی تو پھر اردو مرکز کا بستر بھی لپٹ گیا۔
راشدہ علوی کا مشاہدہ کہتا ہے کہ جو پاکستانی مخلوق یہاں آ کر بسی ہے ان میں گھریلو جھگڑے روزانہ کا معمول ہیں۔ گھر کے برتن باہر پھوٹتے ہیں۔ نوبت طلاق تک پہنچتی ہے۔ بعض طلاقیں کاغذی ہوتی ہیں۔ ایک واقف کار کے بارے میں بتاتی ہیں کہ بیوی کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ بچوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں۔ کاغذی طلاق ہو چکی ہے۔ اس واسطے سے وظیفہ لیتی ہیں۔ میرا بھی گزارہ وظیفہ پر ہے۔ تفصیل یہ بتائی کہ خرابیٔ صحت کی بنا پر ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ خرابی صحت' وجہ یہ بتائی کہ اندھا ہونا آسان ہے۔ سو وہ میں ہو گیا ہوں۔ آنکھوں پر کالی عینک' ہاتھ میں سفید چھڑی، لیجیے اندھے ہو گئے۔ وظیفہ ملنے لگا۔
بتاتی ہیں کہ سیاسی پناہ کا سلسلہ ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا۔ کچھ سچ مچ کے پناہ گیر' حالات نے انھیں جلاوطنی پر مجبور کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اور کتنوں نے لندن آنے کے لیے اس نسخہ کو آزمایا۔ بلکہ وہ زیادہ کامیاب رہے۔ اسائلم حاصل کرنے میں فائدہ ہی فائدہ تھا۔ رہنے کو مکان' کھانے پینے کے لیے وظیفہ' سیاستدان نہیں ہیں تو کیا ہوا۔ پہلے نہیں تھے تو اب بن گئے۔ موقعہ موقعہ سے کوئی بیان جاری کر دیا۔ اس صورت میں اپنے ملک میں سودے بازی کے امکانات روشن ہو گئے۔لکھتی ہیںکہ ''جن لوگوں کو گھر چھوڑے تیس برس سے اوپر ہو گئے ہیں۔ انھوں نے واپسی کے خوابوں' خواہشوں اور امیدوں کو گٹھڑیوں میں باندھ کر اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ہے۔'' ویسے جنہوں نے واپس جانے کی حماقت کی وہ اپنی جمع پونجی لٹا کر خراب و خستہ واپس آ گئے۔
سو اس رنگ سے راشدہ علوی نے لندن میں رہتے ہوئے جو دیکھا اور سنا وہ بیان کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے جانے والوں کے سو طرح کے دکھ ہیں اور سو طرح کے معاملات یعنی ہرے دھنیے کے سوا بھی دکھ ہیں۔ مگر راشدہ علوی کے بیان سے پتہ چلا کہ ہرے دھنیے کا دکھ بھی چھوٹا دکھ نہیں ہے۔ اور انھوں نے اپنے اس دکھ ہی کو خوبی سے بیان نہیں کیا ہے، دوسروں کے دکھوں' پریشانیوں' اچھی بری سرگرمیوں کو بھی اس طرح بیان کیا ہے کہ یہاں سے نکل کر جو مخلوق وہاں جا کر آباد ہوئی ہے اس کا جیتا جاگتا نقشہ ہمارے سامنے آ گیا ہے۔ قصہ مختصر یوں ہے کہ ؎
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
اور یاروں نے کما کھانے کے کیا کیا طور نکالے ہیں۔