نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
پوری قوم اور بالخصوص اہل فکر و نظر اور میڈیا کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے
ایک انگریزی محاورے کے مطابق سیاست میرا چائے کا کپ نہیں ہے (Politics is not my cup of tea) لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کبھی کبھار اس کا ایک گھونٹ (جو اکثر انتہائی تلخ اور بدمزہ ہوتا ہے) پینا ہی پڑ جاتا ہے سو آج بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ بعض مسلمان ممالک میں مسلک کے حوالے سے اختلافات اس قدر شدت سے اور کھل کر سامنے آ رہے ہیں کہ پوری برادری یعنی ملت اسلامیہ اس کی زد میں آ گئی ہے۔ سگے بھائیوں کی طرح ہمسایہ ملکوں میں بھی زمین کے کسی مخصوص خطے کی ملکیت کے حوالے سے اختلافات ہو جاتے ہیں اور یہ بات آج کی نہیں تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہزاروں برس پہلے بھی جب ابھی صرف دس فی صد زمین انسان کے استعمال میں آئی تھی یہ جھگڑے اس وقت بھی ہوا کرتے تھے تقریباً ہر زبان اور معاشرے میں زن، زر اور زمین کو فساد کی جڑ کہا گیا ہے۔ افراد' معاشرے اور اقوام سب کے سب اسی خمار میں اندھے ہو کر باہم دست و گریباں رہتے ہیں اور یہ بات ایسے ایسے مظالم اور جرائم کو جنم دیتی ہے کہ انسان کے اشرف المخلوقات کو کیا انسان ہونے پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔ جوع الارض کا یہ مرض بقول ابلیس سرشت آدم کا حصہ ہے یا اس انسانی تماشے Divine comedy کا ایک روپ جس کی اصل غائت صرف وہ رب عظیم ہی جانتا ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا اور جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے اور جس کے حکم کے بغیر ہمارے ایمان کے مطابق ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا یہ اور بات ہے کہ شاعر،سائنس دان اور فلسفی حضرات کبھی کبھی اپنی اپنی موج میں اس کی کچھ اور طرح سے وضاحت اور تشریح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عبدالحمید عدم مرحوم کی طرح شاعر تو یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ
تخلیق کائنات کے دلچسپ جرم پر
ہنستا تو ہو گاآپ بھی یزداں کبھی کبھی
لیکن ہم اپنی بات کو دوبارہ محدود کرتے ہوئے زمین اور سوچ پر قبضے کی اس خواہش کی طرف آتے ہیں جو ہوس کی صورت اختیار کر لے تو انسانوں کی زندگیاں اور تمام تر اخلاقی اقدار ایک پل میں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ زمین اور اس کے وسائل پر قبضے کی اس روش کا نتیجہ بے شمار انسانوں کی بھوک ذلت اور حق تلفی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مغرب کے فلسفیوں نے انسانوں کی دانش کے ذریعے سے حاصل کردہ مختلف علوم کی معرفت اس کی وجوہات اور نتائج تک رسائی حاصل کرنے کی بہت سی کوششیں کی ہیں جن میں سے کچھ ایک خاص حد تک کامیاب بھی کہی جا سکتی ہیں لیکن جب تک ان میں اس ایمان کو شامل نہ کیا جائے کہ یہ کائنات ایک رب واحد کی تخلیق ہے اور اسی نے اس کے اصول و قواعد مرتب کیے ہیں اور وہی ہم سب کو پیدا کرنے' مارنے اور دوبارہ زندہ کرنے والا ہے تب تک یہ تصویر ادھوری ہی رہے گی اس فرق کو سمجھنے کے لیے کارل مارکس اور اقبال کی تحریروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر اقبال کی ایک مختصر نظم ''الارض للہ'' پر ایک نظر ڈالیے
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون!
کون دریاؤں کی موجووں سے اٹھاتا ہے سحاب!
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد ساز گار
خاک یہ کس کی ہے' کس کا ہے یہ نور آفتاب!
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب!
دہ خدایا یہ زمیں تری نہیں' تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں' میری نہیں
اس صاف' واضح' برحق اور انسانیت کے بنیادی اصولوں پر مبنی وضاحت کے بعد اب انسانی دانش کے ماحصل کو بھی دیکھتے چلیے جسے اقبال نے اپنی نظم ''فرمان خدا'' میں فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ اس میں کارل مارکس کی فکر کو بھی شامل حال کر لیا گیا ہے
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
تو یہ ہے وہ مجموعی منظر نامہ جس کی روشنی میں ہمیں اس وقت ملت اسلامیہ کو درپیش ایک اہم اور انتہائی خطرناک مسئلے پر غور و فکر کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خلفائے راشدین کے زمانے ہی سے مسلمانوں میں کچھ امور پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے سانحہ کربلا سے ان کو ایک نیا موڑ ملا اور بعد کی چند صدیوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان حکومتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ فقہ اور مسلک کے حوالے سے ایسے گروپ بنتے چلے گئے جن کی وجہ سے مختلف مسلمان حکومتوں کے زیر نگیں علاقوں میں کسی خاص مکتبہ فکر کو عددی اکثریت حاصل ہو گئی اور یوں عمومی طور پر ملکی اور ملی سطح پر باہمی آویزشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہم ہر سطح پر کمزور سے کمزور تر اور منتشر ہوتے چلے گئے لیکن ان سب کے باوجود عمومی سطح پر افراد اور ممالک مل جل کر رہتے رہے البتہ یورپ کے عروج اور نو آبادیاتی نظام کے فروغ کے ساتھ یہ صورت حال بدلنا شروع ہو گئی۔ ان غیر ملکی حکمرانوں نے بڑے تسلسل اور مہارت سے فرقہ بندیوں کو ہوا دی جس کے نتیجے میں وحدت اسلامی کا تصور آہستہ آہستہ عقائد اور مسالک میں شدت پسندی کا مظہر بننا شروع ہو گیا اور بیسویں صدی کے وسط میں جب مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزاد ہونا شروع ہوئے تو سب کے ورثے میں کم یا زیادہ عقیدے' جہالت' فرقہ پرستی اور عدم برداشت کی وہ روایات آئیں جن کی وجہ سے اسلامی دنیا آج تک کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی عقائد کے حوالے سے مذہبی گروپ مضبوط اور متشدد ہونا شروع ہو گئے ابتدا میں کسی نے اس تباہ کن تار پیڈو کی نقل و حرکت پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے وہ اختلافات جو ایک عمومی رواداری اور برداشت کے باعث موجود ہونے کے باوجود محدود تھے ایک سرطان کی طرح ہمارے قومی اور ملی وجود میں پھیلنا اور بڑھنا شروع ہو گئے اور جس طرح ہم افغانستان کی جنگ میں بھی نہ چاہتے ہوئے ایک فریق بننے پر مجبور ہو گئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا نشانہ بنے اسی طرح مسالک کی سطح پر بھی ہم باہمی اختلافات کے حوالے سے ایک PROXY WAR کا میدان جنگ بن گئے ہیں جو ایک انتہائی افسوس اور تشویشناک صورت حال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری مسلمان دنیا مل بیٹھ کر ان اختلافات کو ختم کراتی اور ہر طرح کے عقائد رکھنے والوں کو یہ باور کراتی کہ فروعی اختلافات کیسے اور کتنے ہی کیوں نہ ہوں بہر حال فروعی ہوتے ہیں اور ایک خدا ایک رسولؐ اور ایک کتاب پر ایمان لانے کا رشتہ ایسا ہے جس کو مضبوط کرنے سے اس انتشار پر اس حد تک قابو پایا جا سکتا ہے کہ یہ اگر سرے سے نابود نہیں تو اتنے کمزور اور بے معنی ضرور ہو سکتے ہیں کہ ہمیں بطور مسلمان اپنا تعارف کرواتے وقت ان کا حوالہ دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اس وقت پاکستان کی حکومت کو اس تنازعے کے تاریخی پس منظر' نو آبادیاتی دور کی تخریب کاریوں اور عہد حاضر کے مخصوص مسائل اور حالات کی وجہ سے جس صورت حال کا سامنا ہے پوری قوم اور بالخصوص اہل فکر و نظر اور میڈیا کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ''حکومت'' سے اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو کم از کم اس مسئلے میں اسے الگ رکھنا چاہیے کہ اسی میں ہماری بقا بھی ہے اور ہمارے رب کی خوشنودی بھی کہ جب تک حرم کی پاسبانی کے لیے ہر عقیدے نسل رنگ قوم اور ملک کے مسلمان ایک نہیں ہوں گے بات نہیں بنے گی۔