بیرونی امداد اور پاکستانی حکمراں

پاکستانی حکمرانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عیاشیاں چھوڑ کر پیسہ عوام پر خرچ کریں


پاکستانی حکمران اپنی عیاشیاں ترک نہیں کرتے اور مشکل حالات میں بیرونی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وطن عزیز کی معاشی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی۔ روپیہ اپنی گراوٹ کے اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ رہا تھا۔ ہم بین الاقوامی ادارے سے قرضے کےلیے درخواستیں کررہے تھے مگر وہ ''ڈو مور'' کا مطالبہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے نئے مطالبات رکھ رہا تھا۔ ڈالر ملنے کی کہیں سے کوئی امید نہیں تھی، کیونکہ امریکا بھی افغانستان سے جاچکا تھا، دنیا میں کہیں پر کسی جنگ کا امکان بھی نہیں تھا، اس لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا کہ آج نہیں تو کل ہم سری لنکا بن جائیں گے۔

مگر پھر یوں ہوا کہ وطن عزیز میں بارشیں شروع ہوگئیں۔ یہ بارشیں سیلاب میں تبدیل ہوئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، سڑکیں، پل، ڈیم تباہ ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی ہماری حالت بد سے بدتر ہونا شروع ہوگئی۔ لیکن یہ قدرتی آفت جہاں ایک طرف بدترین تباہی لے کر آئی، وہیں ہمارے لیے ڈالر بھی لائی۔ دنیا بھر سے ہمیں امداد ملنا شروع ہوگئی۔ دوست ممالک، اقوم متحدہ نے ہم پر ڈالروں کی بارش شروع کردی۔ بین الاقوامی ادارہ بھی قرض کی منظوری دے چکا ہے۔ دیگر ممالک بھی ڈالر بھیج رہے ہیں۔ روپیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تگڑا ہورہا ہے۔

سیلاب نے ہمارے بارے میں دنیا کے موڈ کو بدل دیا۔ وہ جو ہم پر ترس نہیں کھا رہے تھے، انہیں بھی ہمارے معصوم اور بے کس عوام کی حالت زار دیکھ کر ترس آگیا اور انہوں نے معصوم بچوں کی آہ و پکار پر اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ وہ تڑپتی، سسکتی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے تمام تر خدشات کو پس پشت ڈال کر ہماری مدد کےلیے تیار ہوگئے۔

لیکن اگر نہیں بدلے تو ہمارے اپنے نہیں بدلے۔ اس کی تازہ ترین مثال مریم نواز ہیں، جو انجلینا جولی کی طرح سیاہ لباس زیب تن کیے متاثرہ علاقوں میں تو پہنچیں مگر بجائے مدد کرنے کے صرف فوٹو سیشن پر ہی اکتفا کیا۔ ایک بزرگ خاتون نے شکوہ کرتے ہوئے کیمرے کے سامنے کہا کہ ہم اتنی دور سے آئے لیکن مریم نواز آئیں، میرے سر پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنائی اور چلی گئیں۔ یہ کیسی امداد ہے؟

انجلینا جولی سے یاد آیا کہ اگر انجلینا کی 2010 کے سیلاب کے بعد دی گئی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے ہم سے باز پرس کی ہوتی، جس طرح آج آئی ایم ایف قرضہ دینے سے پہلے اپنی شرائط پر عمل کروا رہا ہے، کم از کم اسی طرح اقوم عالم نے ہم سے انجلینا جولی کی رپورٹ پر عمل کروایا ہوتا تو آج ہماری حالت اس قدر بری بھی نہ ہوتی۔

انجلینا جولی 2001 سے اقوام متحدہ کی سفیر بن کر پاکستان آرہی تھیں۔ وہ 2005 کے زلزلے کے دوران بھی پاکستان آئیں، مگر 2010 کے سیلاب کے بعد وہ لکھنے پر مجبور ہوگئیں کہ پاکستان کو مدد تو دی جائے مگر پاکستانی حکمرانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عیاشیاں چھوڑ کر پیسہ عوام پر خرچ کریں۔

افسوس صد افسوس اس رپورٹ سے ہماری جگ ہنسائی تو ہوئی لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔ صرف مریم نواز ہی نہیں ہمارے دیگر حکمران جیسے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کی منظرعام پر آنے والی حالیہ ویڈیو، جس میں وہ ہیلی کاپٹر سے ہاتھ ہلاکر سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ آغا سراج درانی کی ویڈیو جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیلاب آپ کے گناہوں کی وجہ سے آیا ہے۔ فریال تالپور کے شوہر کی پچاس پچاس روپے تقسیم کرنے کی ویڈیووغیرہ۔

انجلینا جولی کی اُس رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ تھا جس سے ہمارے حکمرانوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت تھی۔ مگر شاید نہیں، کیونکہ اگر ہم نے سبق سیکھا ہوتا تو مندرجہ بالا واقعات وقوع پذیر نہ ہوتے۔ ہمارے ہر دلعزیز حکمرانوں کا رویہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم من حیث القوم خود پر غور کریں۔ ہم خدائے بزرگ و برتر کے حضور معافی کے طلبگار ہوں، اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے سربسجود ہوجائیں اور درخواست کریں کہ ہمیں نیک اور صالح حکمران عطا فرما، جو ہمارا احساس کریں۔ اور اگر ہمارے گناہوں کی بدولت ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ عوام کی موجودہ حالت زار، ہماری چور بازاری، رشوت، لوٹ کھسوٹ، جس کو جہاں پر موقع ملتا ہے وہ کسر نہیں چھوڑتا، یعنی شریف وہی ہے جسے موقع نہیں ملا، تو پھر ہمارے اور حکمرانوں کے رویے تبدیل ہوجائیں۔ ہم لوگ خود سے، وطن عزیز سے مخلص ہوجائیں۔

یاد رکھیے اگر اس سیلاب کے بعد بھی ہم نے خود کو نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ایک یورپی ملک کی طرح ہم سے سوال کرے گی کہ ہم نے آپ کی مدد کی ہے، آپ بتائیے کہ آپ نے ایسا کیا کیا کہ آئندہ آپ کو سیلاب کی صورت میں سوالی نہ بننا پڑے، کیونکہ سیلا ب تو آتے رہیں گے؟ اور کسی نے کیا خوب کہا کہ سیلاب قدرت کی طرف سے آتے ہیں لیکن سیلاب کی تباہ کاریاں انسانوں کی وجہ سے آتی ہیں۔

جن جگہوں پر 2010 کے سیلاب نے تباہی مچائی تھی، دوبارہ انہی جگہوں پر تعمیرات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر حکومت نے انجلینا جولی کی 2010 کی رپورٹ پر عمل کرلیا تو امید ہے ہمارا کشکول ٹوٹ جائے گا، وگرنہ شاید آئندہ کسی قدرتی آفت کے موقع پر بھی ہمیں مدد نہ مل سکے اور اگر ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں