افتخار مجاز ‘ اردو ادب کا افتخار
مجاز صاحب زندگی بھر اپنے دکھ درد چھپائے بہت سی بیماریوں سے لڑتے رہے جبکہ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں
بیسوی صدی کے اُردو ادب وصحافت میں جن سخنوروں نے اپنے کام کی بنیاد عہد موجود کے مسائل وافکار پر رکھی اُن میں افتخار مجاز بھی ایک معتبر حیثیت رکھتے تھے۔ وہ ناقدین فن وہنر، ماہرین اُردو ادب اور قارئین شعروسخن شناس کو اپنا محبوب سمجھتے تھے۔ انھوں نے 1954 کو شاہدرہ کے علاقہ میں ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں علمی ذوق اور ادبی ماحول پہلے سے ہی موجود تھا۔
ان کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر، ممتاز ادیب، شاعر،محقق،مرتب، کالم نویس اور مایہ ناز کمپیئر تھے۔ مجاز صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ میں انفارمیشن آفیسر کے طور پر ملازمت اختیار کی ۔ اسی دوران پاکستان ٹیلی وژن میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی اسامیاں نکلی تو انھوں نے وہاں اپلائی کر دیا اور منتخب ہونے کے بعد اسلام آباد اسٹیشن میں پہلی پوسٹنگ ہوئی۔
کچھ عرصہ گزارنے کے بعد واپس لاہور مرکز آگئے جہاں انھیں پی ٹی وی کا پہلا PRO ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ پی ٹی وی کا وہ سنہرا دور تھا ، زبان و بیان کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوتا۔ اس حوالے سے مجاز صاحب اکثر دوستوں سے دل برداشتہ ہو کر کہا کرتے تھے کہ ''ہم نے میڈیا میں جو کچھ سیکھا، پڑھایا، کام کیا وہ یہ میڈیا نہیں تھا جو آج ہمیں دکھایا جا رہا ہے۔''
افتخار مجاز بنیادی طور پر الیکٹرانک میڈیا کے آدمی تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن ان کی اصل پہچان تھا ،انھوں نے اپنے 34 سالہ Career کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن منصبی ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران کبھی بھی ہمت نہ ہاری بلکہ ایک مضبوط چٹان کی طرح حالات کے پل صراط سے گزرتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں سے حالات کی بندشوں کا مقابلہ کیا۔
انھیں پی ٹی وی میں رہتے ہوئے متعدد اعلیٰ سیاسی، سماجی اور عسکری شخصیات سے ملنے اور ان سے تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تقریریں اور انٹرویو ریکارڈ کرنے کے مواقع بھی میسر آئے مگر انھوں نے کئی بار بتایا کہ'' اس دوران میں کبھی بھی نہ گھبرایا بلکہ بڑی جرات مندی سے کام کیا۔ اس حوالے سے میرے کام کی تعریف بھی ہوتی اور تنقید بھی۔ مگر میں نے ان تمام باتوں کو مثبت انداز میں لیا اور ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے انجام دوں۔ ''
افتخارمجازنے پی ٹی وی کے لیے لاتعداد تاریخی پروگرامز بھی پرڈیوس کیے ، جن میں جائزہ، سوچ وچار، ڈیلی مارننگ ٹرانسمیشن، کتاب،سیریز،آئین پاکستان،سال بہ سال'' سمیت کئی ڈاکو مینٹریز، رپورٹیں اور لائیو رپورٹنگ کے پروگرامز ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ان میں''کتاب'' اور ''سوچ وچار'' ایسے پروگرام تھے جنھیں عوام الناس میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ''کتاب'' ایک ایسا پروگرام تھا جس میں کتاب لائبریری میں شایع ہونے والی نئی کتب اور کتاب کلچر کے فروغ پر مبنی تھا۔
اس پروگرام کے میزبان اعزاز احمد آذر تھے جب کہ ''سوچ وچار'' پی ٹی وی کا ایک ایسا پروگرام تھا جو پنجابی زبان پہ مبنی پنجاب کی ادب وثقافت اور معاشرے کے دیگر ایشوز پر مبنی تھا۔ اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر محمود قریشی اور اعزاز احمد آذر ہوا کرتے تھے۔ٍٍ افتخار مجاز پی ٹی وی سے جب ریٹائر ہوئے تو اُس وقت لاہور جیسے اہم سینٹر کے ہیڈ آف کرنٹ افیئرکے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔
ان کے کلاس فیلو عابد کمالوی بتاتے ہیں کہ''افتخار مجاز بہت محنتی تھا اُس نے کام کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی ۔ اس دوران اسے جو معاوضہ ملتا اُسے اپنی پڑھائی پر خرچ کرتا۔ ہم دونوں نے اکٹھے ایم اے صحافت کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔
اُس وقت مجاز بہت شرارتی تھا اُس وقت اس کا شمار ایسے طالب علموں میں ہوتا تھا جو شوخ طبیعت کے مالک ہوں۔ مجھے یاد ہیں کہ یہ جب کلاس میں آتا تو پتہ چل جاتا تھا کہ افتخار مجاز آ گیا ہے۔ اس کے آنے سے کلاس روم میں رونق آ جاتی تھی۔ یہ آدمی کتاب سے انتہائی درجے تک محبت کرنے والا تھا۔ میں اسے کتاب دوست نہیں کتاب کا عاشق کہوں گا ۔ طالب علموں میں ان کی سب سے زیادہ معیاری تحریریں مختلف اخبارات ورسائل میں شایع ہونے پر انھیں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے ''عبدالمجید سالک ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔
پاکستان ٹیلی وژن سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے مستقل گھر میں ڈیرا لگا لیا۔ جہاں وہ اپنے قلمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے مختلف اخبارات ورسائل میں کالم لکھنے لگے۔ان کے بعض کالموں میں حقیقت کشائی کے پہلو کھولتے دکھائی دیتے تھے، جب کہ کچھ کالموں میں ان کی سنجیدہ پن کے شانہ بشانہ مزاح بھی دکھائی دیتا۔ان سے فن پر جب بھی بات ہوتی تو باتوں باتوں میں ایسی بات کر ڈالتے کہ آدمی سن کر حیران ہو جاتا جس کے جواب یہ ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہتے بھئی مذاق کیا ہے تم لوگ مذاق کی کیفیت کو بھی نہیں سمجھتے۔بقول غالب۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
مجاز صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈاکٹر محمد اجمل نیازی مرحوم کے توسط سے ہوئی۔ جس کے بعد ہمارے درمیان ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ان کا گھر علامہ اقبال ٹاؤن کے نظام بلاک میں ہے۔ان کے گھر اکثر ملاقاتوں کے دوران ان کے بچپن کے رفیق ڈاکٹر شہباز انور خاں بھی موجود ہوتے۔'' مجاز صاحب اکثر یہ جملہ کہتے کہ بیٹا ہم نے ادب بڑوں کی جوتیوں میں بیٹھ کر سیکھا ہے۔ ''مجاز صاحب مجھے جب دیکھتے تو کہتے ''لو بھئی ہمارا شہزادہ آ گیا'' ایک دفعہ میں نے کہا ''سر میں شہزادہ نہیں ہوں، میں تو آپ سنیئرز کا خادم ہوں۔'' میرے اس جواب پر ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہا'' تم خادم نہیں تم تو میرے گھر کے فرد میرے بیٹے ہوں،تم حسن سے چھوٹے میرے بھتیجے ہو''مجاز صاحب کی یہ محبت اور شفقت میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ انھی کی بدولت مجھے سب سے پہلے کسی قومی اخبار میں کالم لکھنے کا موقعہ فراہم ہوا۔ وہ میرے بارے میں اکثر یہ الفاظ کہا کرتے تھے۔ ''باادب با مراد''
مجاز صاحب زندگی بھر اپنے دکھ درد چھپائے اندر ہی اندر بہت سی بیماریوں سے لڑتے رہے جب کہ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ وہ کچھ عرصہ سے دل کے عارضہ میں مبتلا تھے پھر بعد میں انھیں فالج نے آ لیا اور پھر آخر کارمالک الملک نے بارہ اپریل شبِ معراج کو اپنے پاس بلا لیا اسی طرح ان کے بڑے بھائی آذر کو بھی چار سال قبل شبِ معراج کی مقدس شب ہی نصیب ہوئی۔افتخار مجاز ہمیشہ پاکستان ٹیلی وژن کا افتخار اور ہمارا اعزاز رہیں گے۔
موت برحق ہے مگر مرنے کا بھی انداز ہے
موت جس پر لوگ مرجائیں، بڑا اعزاز ہے