کوئی تو شہر قائد کو ’’کے الیکٹرک‘‘ سے نجات دلائے

کے الیکٹرک اوور بلنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ، یونیفارم، پیک آور اور نجانے کتنے قسم کے ٹیکسز کے نام پر عوام کو لوٹ رہی ہے


محمد عارف میمن August 27, 2022
عوام کے شدید احتجاج کے باوجود بھی کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ (فوٹو: فائل)

آج کل پورے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ کہیں ٹیکنیکل ایشو کی بنیاد پر بجلی بند کی جارہی ہے تو کہیں لوڈشیڈنگ کا نام دیا جارہا ہے۔ کراچی کے 80 فیصد علاقوں میں محض 6-7 گھنٹے ہی بجلی میسر ہے۔ ان علاقوں میں بلدیہ، اورنگی، گڈاپ، لیاری، گلشن معمار، بنارس، ناظم آباد اور دیگر کئی علاقے شامل ہیں جہاں روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے۔

2005 میں جب کے ای ایس سی کو پرائیوٹ کیا گیا تو معاہدے کے مطابق نئی کمپنی بجلی کی استعداد بڑھانے، سروس بہتر اور کراچی کو لوڈشیڈنگ سے فری کرنے کی پابند تھی۔ تاہم یہ معاہدے محض معاہدے ہی ثابت ہوئے، جن پر آج تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اور اب کراچی والوں کو اس کی عادت بھی ہوچکی ہے۔

لوڈشیڈنگ پر کراچی والے صبر کا گھونٹ پی ہی رہے تھے کہ اس کمپنی نے اپنی عیاشیوں میں اضافے کےلیے ایک مرتبہ پھر عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے کےلیے ہندسوں کا گورکھ دھندا شروع کردیا۔ جس کا نام فیول ایڈجسٹمنٹ، کوارٹرلی یونیفارم چارجز اور دیگر کئی ایسے چارجز جو صارفین کے دماغ کو چکرا کر رکھ دیں، سب ایک ساتھ ڈال کر بل بھیجنا شروع کردیا ہے۔

کچھ دن قبل ایک سینئر صحافی نے بلدیہ ٹاؤن کے ایک گھر سے لائیو ویڈیو میں جب گھر کے مناظر دکھائے اور اس کے پیچھے کی کہانی سنائی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ایک کمرے کے مکان کا بل 80 ہزار روپے آگیا۔ جس کمرے کا بل 80 ہزار آیا اس کمرے میں بجلی کے آلات میں محض ایک پنکھا اور ایک سیور بلب ہی تھا۔ لیکن کے الیکٹرک تو کراچی پر ایک عذاب ہے، اس کمپنی کی ایک حرکت نے ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا۔ اس گھر کے مالک مکان نے رہائشیوں کو نوٹس دے دیا کہ بل بھریں یا مکان خالی کریں۔ اب ایک غریب جو محض بیس تیس ہزار روپے کما کر اپنے کنبے کا گزر بسر کررہا تھا، ایسے میں وہ 80 ہزار روپے کا بل لے کر کے الیکٹرک کے دفاتر کے چکر لگاتا رہا۔ اسی میں پورا مہینہ گزر گیا۔ اگلے مہینے کمپنی نے اپنے کارندے بھیج کر اس گھر کی بجلی منقطع کردی۔ جس پر اس غریب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اسی وقت دنیا سے چل بسا۔ یہ ایک قتل تھا جس کا مقدمہ کے الیکٹرک کمپنی کے خلاف درج ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس ہماری حکومت اس کمپنی کی شرارتوں سے روزانہ لطف اندوز ہوتی رہتی ہے۔ جس پر آج تک 17 سال میں کوئی ایک بھی کارروائی نہیں کی گئی۔

آج کل کے الیکٹرک نے ایک نیا بھتہ سسٹم ایجاد کرلیا ہے۔ پہلے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتے رہے اور اب یونیفارم، پیک آور، ڈاؤن آور کے نام پر عوام سے لوٹ مار شروع کر رکھی ہے۔ ویسے تو ایک سرکاری دستاویزات میں فی یونٹ نو دس روپے ہے، تاہم جب حساب کیا جائے تو فی یونٹ 70 سے 80 روپے میں آجاتا ہے۔ یہ کہانی کے الیکٹرک کمپنی کی طرف سے عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے۔

ماہ اگست کے بل میں مئی اور جون کا فیول ایڈجسٹمنٹ چارج ڈال کر بل کو آسمان کی بلندی پر پہنچادیا گیا۔ ایک صارف جس نے ماہ اگست میں 97 یونٹ استعمال کیے، اس کا بل 2500 روپے بھیج دیا گیا جس کے مطابق فی یونٹ 25-26 روپے بنتا ہے۔ یعنی کراچی کا ایک عام صارف لوڈشیڈنگ، اووربلنگ کے بعد اب فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی پیسے دے رہا ہے۔ کراچی کے ساتھ یہ ظلم آخر کب تک چلے گا؟ اس پر حکومت کب ایکشن لے گی؟
کے الیکٹرک کا گورکھ دھندا دیکھنے کےلیے ایک اور صارف کا بل دیکھا، جس نے 107 یونٹ استعمال کیے تھے، مگر اس کا بل 2000دو ہزار روپے دیا۔ یعنی اس کمپنی کا جہاں بس چل رہا ہے وہاں سے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔ جس نے 97 یونٹ استعمال کیے وہ غریب کچی آبادی کا رہنا والا ہے اور جس نے 107 یونٹ استعمال کیے وہ ہائی سوسائٹی کا رہنے والا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کمپنی کو بخوبی معلوم ہے کہ اگر یہاں کوئی گڑبڑ کی تو یہ سیدھا عدالت کا دروازہ کھٹکھائیں گے۔ جب کہ کچی آبادی میں رہنے والا چپ چاپ بل بھردے گا، اس لیے یہاں جتنی ہوسکے لوٹ مار کی جائے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

کراچی سے زیادتی کا سلسلہ عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے۔ کراچی ٹیکس دینے میں سب سے آگے لیکن سہولیات کے معاملے میں شہر قائد کو جنوبی سوڈان بنادیا گیا ہے، جہاں ایک گیلن پانی کےلیے بھی لوگوں کو ترسا کر رکھا ہوا ہے۔

کراچی والے بمشکل گزر بسر کررہے ہیں۔ گھروں کے کرائے آسمان پر پہنچ چکے ہیں، کرائے دار ایکٹ ہونے کے باوجود آج تک نافذالعمل نہیں۔ جس کا مالکان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرائے داروں سے آئے روز ناجائز پیسے وصول کررہے ہیں۔ ایک کمرے کا کرایہ دس ہزار روپے رکھ کر ساتھ میں بجلی اور گیس کے بل الگ الگ کردیے۔ چھ ماہ بعد کرائے میں دس فیصد اضافہ یہ کہہ کر کردیا جاتا ہے کہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ کورٹ جانے پر وکیل کو بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے، اس لیے غریب مجبوراً مکان خالی کردیتا ہے اور جب دیا گیا ایڈوانس مانگتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ فلاں تار ٹوٹی ہے، فلاں دروازے پر نشان ہے، فرش پر خراشیں آگئی ہیں۔ ایڈوانس اس میں ہی پورا کردیتے ہیں۔ مطلب ایک غریب جو ایک ایک پیسہ جوڑ کر مکان کرائے پر لیتا ہے وہ اس امید پر ہوتا ہے کہ جب مکان خالی کرے گا تو ایڈوانس واپس مل جائے گا، مگر یہاں فرعونیت کا راج ہے جو غریب کرائے داروں کےلیے ایک دجال کا روپ رکھتے ہیں۔ ان کا پیسہ ہڑپ کرکے انہیں بے سہارا چھوڑ کر مکان خالی کرالیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں کوئی مجبور شخص چوری اور ڈکیتی نہ کرے تو کیا کرے؟

کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں اضافے کے پیچھے کئی پہلو ہیں جن پر غورکرنا حاکم وقت کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

کراچی والوں پر ایک عذاب نہیں، یہاں ہر عذاب کے پیچھے ایک عذاب چھپا ہے۔ کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز بھی کراچی والوں پر ایک عذاب کی صورت میں نازل ہیں جو اپنے اے سی والے کمروں سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے۔ کہیں چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ ہر جگہ منافع خوری چل رہی ہے۔ ہر دکان دار اپنے پسند نرخ پر اشیا بیچ رہا ہے۔ اور یہ لوگ سال میں ایک آدھ مرتبہ باہر نکل کر تصویر بنواتے ہیں اور کسی ایک آدھ دکان پر محض پانچ ہزار روپے جرمانہ کرکے واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان کا کام صرف پارٹی کی خدمت رہ گیا ہے، اس کے علاوہ ان سے کوئی کام نہیں ہوتا۔

دودھ فروش اپنی مرضی کے نرخ پر دودھ بیچ رہا ہے، گوشت فروش اپنی من مانی کررہا ہے۔ سبزی فروش اپنا رونا روتے نظر آتے ہیں اور عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے میں مصروف ہیں۔ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہ وہاں ہاتھ صاف کررہا ہے۔ لیکن کسی کو کسی بھی قانون کا کوئی خوف نہیں۔ کیوں کہ یہاں انصاف اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ ایک غریب تو عدالت جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جہاں ایک اسٹامپ پیپر سو روپے کے بجائے دو سو روپے کا بک رہا ہو وہاں انصاف کیسے مل سکتا ہے؟

ایسے میں اب امید کی آخری کرن آرمی چیف ہی رہ گئے ہیں، جن سے کراچی والے گزارش کرتے ہیں وہ ان معاملات پر ایکشن لیں اور کے الیکٹرک کمپنی کی آئے روز کی بدمعاشیوں سے کراچی والوں کو نجات دلائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں