نشہ قوم کا مستقبل نگل رہا ہے

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 700 افراد نشے کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں


2025 تک پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

''آپ کو معلوم ہے کہ مجھے پہلی بار نشہ کس نے لا کر دیا تھا؟''

''جی معلوم ہے۔'' میں نے اسے حیران کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ''کس نے؟'' اس نے سوالیہ اندازمیں میری طرف دیکھا۔

''کسی کلاس فیلو نے لاکر دیا ہوگا۔ کیونکہ عام طور پر ہمارے خوشحال گھرانوں کے طلبا اسکول، کالج سے ہی شوقیہ نشہ شروع کرتے ہیں اور پھر وہ دھیرے دھیرے تاریک راہوں کے مستقل مسافر بن جاتے ہیں۔'' میں نے وطن عزیز کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیا۔

''آپ غلط سمجھے۔ مجھے پہلی بار نشہ میرے بھائی نے لاکر دیا تھا۔'' اس کی بات نے مجھے واقعی حیران کردیا۔

''آپ کے بھائی نے؟ مگر کیوں؟'' میرے لیے یہ واقعی حیرانی کی بات تھی کہ ایک بھائی اپنی بہن کو نشہ کیوں لاکر دے گا۔

''دراصل ہمارے گھر میں بے سکونی ہے۔ ہمارے گھر میں ہر وقت شور رہتا ہے۔ میرے والد ذرا سی بات کا بتنگڑ بنالیتے ہیں۔ معمولی بات پر ہاتھ اٹھانا ان کا معمول ہے۔ اسی وجہ سے میرے بھائی نے پہلے خود سکون کےلیے نشہ استعمال کیا اور پھر یہ کہتے ہوئے ایک پڑیا مجھے دی کہ اسے استعمال کرنے سے سکون ملتا ہے۔'' اس نے اپنے درد کی مختصر داستان بیان کی۔

''آپ کے والد اَن پڑھ ہیں؟'' میں نے سوال کیا۔

''نہیں میرے والد تعلیم یافتہ اور ایک اچھی کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دنیا بھر کی تمام چیزیں ہیں، ہمیں ہر سہولت مہیا ہے سوائے سکون کے۔''

اور پھر میں سکون حاصل کرنے کے روحانی نسخے بتاتے ہوئے آف لائن ہوگیا۔ مختصر طور پر عرض کرتا چلوں کہ میری اس لڑکی سے بات سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہوئی تھی اور میری معمولی سی توجہ پر اس نے حالِ دل کھول کر رکھ دیا۔ یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں، ہماری نوجوان نسل کی اکثریت نشے کا شکار ہوچکی ہے۔ نشہ ہمارے اسکول، کالجز، یونیورسٹیز میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ سابق وزیر شہریار خان آفریدی فلور آف دی ہاؤس پر یہ دعویٰ کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایک وی آئی پی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ نشے کی بدولت اس کی تعلیم کے دو قیمتی سال ضائع ہوگئے، حالانکہ اس نے بطور تفریح نشے کا استعمال شروع کیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت کی یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن لینے والی ایک لڑکی کے بقول وہ نئے بننے والے دوستوں کی وجہ سے نشے کا شکار ہوگئی۔ والدین کی بروقت مداخلت کی بدولت اس کی جان تو بچ گئی مگر تعلیم تباہ ہوگئی۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں پیش آنے والے دلخراش واقعے، جس میں میڈیکل کالج کی طالبہ کو جوتے چاٹنے پر مجبور کیا گیا، کے بارے میں بھی بعض افراد کا کہنا ہے کہ لڑکی نشے کی عادی ہے۔

حالیہ دنوں میں اے ٹی ایم سے کیش نکالنے والوں کو لوٹنے والے تین افراد کے گروہ سے جب تفتیش کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں، نوکری نہ ملنے کی وجہ سے ڈکیت بن گئے، پھر نشے کی لت پڑگئی، اب نشہ پورا کرنے کےلیے ڈکیتی کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 700 افراد نشے کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ تلخ امر یہ ہے کہ یہ تعداد دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

عالمی ادارہ برائے صحت کی ایک رپورٹ جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں نشہ آور اشیا استعمال کرنے والے افراد کے متعلق بتایا گیا ہے، کے مطابق 2025 تک پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے خاتمے کےلیے ہم سب میدان عمل میں نکلیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ والدین کی ذمے داری ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ان کی روحانی ضروریات بھی پوری کریں۔ گھر کے ماحول کو پرسکون رکھیں۔ اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ میاں بیوی آپس کی لڑائیوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کریں، اگر ایسا نہ ہوسکے تو اپنے اختلافات کو بیڈ روم تک محدود رکھیں، کیونکہ والدین کی لڑائیوں کے بچوں پر خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گھر کی بے سکونی بچوں کو باہر سکون تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے اور باہر سکون منشیات کے درخت کے نیچے ہی ملتا ہے۔ بچوں کے دوستوں پر غیر محسوس انداز میں نظر رکھیں۔ یاد رکھیے آپ کی معمولی کوتاہی، تھوڑی سی عدم برداشت آپ کے بچوں کو مستقل طور پر تاریک راہوں کا مسافر بنا سکتی ہے۔

حکومت کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ منشیات کی روک تھام کےلیے، محکمے، قوانین موجود ہیں۔ حکومت صرف اتنی مہربانی کرے کہ قوانین پر عمل کروائے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہش مند 99.7 فیصد افراد اس علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت خیراتی اداروں کے تعاون سے مفت بحالی سینٹرز کی تعداد بڑھائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔

یاد رکھیے اگر ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنی ذمے داری ادا نہ کی تو پھر بہت دیر ہوجائے گی اور ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں