اگست 1988
جب جنرل ضیاء اور جنرل اختر کا طیارہ تباہ ہوا تو پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا
سانحہ بہاولپور 1988 کو بہت سال گزر چکے تھے۔ میں سوویت افواج کے خلاف جہاد افغانستان پر ایک تحقیقی رپورٹ تیار کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ صرف بریگیڈیئر یوسف ہی ہیں، جو اس موضوع پر بنیادی، مصدقہ اور مطلوبہ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ وہ جہاد افغانستان کے دوران 1983 سے 1987 تک آئی ایس آئی افغان ونگ کے انچارج رہ چکے ہیں اور براہ راست آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن کے تحت اپنے غیر معمولی طور پر حساس اور خفیہ فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی دو کتب The Bear Trap اور The Silent Soldier شائع ہو چکی ہیں، جو عالمی سطح پر مستند ترین کتب میں شمار ہوتی ہیں۔
میں واہ کینٹ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، جہاں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ میں ان کے حیرت انگیز مشاہدات و تجربات سے مستفید ہوتا رہا اور جب میں واپسی کے لیے اٹھا، تو اس معمر مجاہد نے دکھ بھرے لہجہ میں جو کہا، وہ آج تک میرے دل پر نقش ہے اور ہر سال جب اگست کے یہ ایام آتے ہیں، توان کے اس کہے کی کسک سوا ہو جاتی ہے، اور میں خود کو اس سانحہ پر قلم اٹھانے پر مجبور پاتا ہوں۔
کہا، ایک سانحہ، جس کے نتیجہ میں آن ِواحد میں حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری عسکری لیڈرشپ بھی تبدیل ہوگئی، ہم نے آج تک اس سانحہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، بلکہ اسے سانحہ کو اس طرح فراموش کر دیا ، جیسے کوئی سانحہ رونما ہوا ہی نہیں۔ ہم یہ بھی بھول چکے کہ اس سانحہ میں وہ سربکف جنرل ہم نے کھو دیے ، جنھوں نے دفاع وطن کی خاطر دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور سے ٹکر لی اور اسے افغانستان میں شکست دی ، اور اس کا بحیرئہ عرب تک پہنچنے کا خواب بکھیر دیا ۔'' یہ کہتے ہوئے اس معمر مجاہدکی آنکھوں میں نمی تیرے لگی، اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے مجھ سے الوداعی مصافحہ کیا۔ یہ میری بریگیڈئر یوسف سے پہلی اور آخری ملاقات تھی، جو اب اپنے رب کے حضور ہو چکے ہیں ، لیکن جو سوال وہ اپنے پیچھے اپنے ہم وطنوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں ، وہ سوال آج بھی اپنے ہم وطنوں سے جواب مانگ رہا ہے۔
سوویت افواج کو افغانستان میں بدترین شکست ہوئی، بلکہ اس جنگ کے دوران میں ہی پاکستان کا ایٹمی پروگرام پایہ ء تکمیل کو پہنچا ، امریکا کے عسکری ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 17اگست1988 کو ، جب جنرل ضیاء اور جنرل اختر کا طیارہ تباہ ہوا ، تو پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ Bruce Riedel جو اس جنگ کے دوران سی آئی اے میں کام کر رہے تھے۔ جارج بش اور بارک اوباما سمیت چار امریکی صدور کے مشیر رہ چکے ہیں۔
سوویت افواج کے خلاف افغان جنگ پر دو تحقیقی کتب What We Won, America's Secret War in Afghanistan 1979 - 89 اور Avoiding Armageddon کے مصنف ہیں۔ حساس عسکری امور پر امریکی سینٹرل کمانڈ CENTCOM کے سیمیناروں میں باقاعدگی سے مدعو کیے جاتے ہیں، بلکہ2011ء میں یہیں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے امریکا کو افغانستان میں شکست سے قبل ازقت خبردار کر دیا تھا ۔ Bruce Riedel کے بقول، سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد صدر ضیاء نے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن سے مشورہ طلب کیا، تو جنرل اختر نے کہا کہ اگر افغانستان ہی میں سوویت افواج کی پیشقدمی نہ روکی گئی، تو بحیرئہ عرب تک رسائی کے لیے روس کا اگلا ہدف بلوچستان ہوگا۔
اس خطرے سے بچنے کی ایک ہی راستہ ہے ، لہٰذا : Pakistan substantially increase its aid to mujahedin therefore bogging Moscow down in the qaugmire , it the 40th army was neutralized by mujhedin , it would not be able to threaten Pakistan . پاکستان مجاہدین کی بھرپور مدد کرے اور افغانستان کو سوویت افواج کے لیے دلدل بنا دے۔ اس طرح اگر مجاہدین کے ہاتھوں سوویت افواج کی طاقت غیر موثر ہو جاتی ہے، تو وہ پاکستان کے لیے خطرہ نہیں بن سکیں گی ۔
مطلب یہ کہ آج امریکا کے عسکری ماہرین اور دانشور توسوویت افواج کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کی زیر کمان آئی ایس آئی کے تاریخی کردار کا اعتراف کررہے ہیں،اور اس جنگ میں جیت کا کریڈٹ پاکستان کو دیتے ہیں، بلکہ بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں بعد میں دیکھی جانے والی تیزی کو بھی سوویت افواج کے خلاف افغان جنگ کی کامیابی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم میں آج بھی احساس کمتری کے مارے ہوئے کچھ اس طرح کے دانشور موجود ہیں ، جو سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی جیت کا سہرہ پاکستان اور اس کے سرفروش جرنیلوں کے سر سے اتار کے امریکا کے سر سجانے پر بضد ہیں ،کون لوگ ہیں یہ ، اناللہ و اناالیہ راجعون