ایک روایتی جشن آزادی

وہی روایتی جشن، سیمینارز اور تقاریر... کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ اور آئندہ کے اہداف مقرر کیے جاتے


اس جشن آزادی پر بھی وہی سب کچھ دہرایا گیا جو ہر سال ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: ہر سال کی طرح اس بار بھی پاکستان کی آزادی کی سالگرہ ملک اور بیرون ملک میں بھرپور طریقے سے منائی گئی، توپوں کی سلامی دی گئی، کیک کاٹے گئے، سیمینارز منعقد ہوئے، تقاریر ہوئیں، ملک بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے اور، اور... وہی سب کچھ جو ہر سال ہوتا ہے۔

عین ممکن ہے اگلے برس پھر ایسا ہی کچھ ہو، یعنی آئے، بیٹھے، کھایا پیا اور چلے گئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ جشن آزادی تبلیغی جماعت کے اس دو ماہ کے بعد منعقد ہونے والے مشورے کی مانند ہوتا جس میں دو ماہ کی کارگزاری سننے کے بعد ذمے داران نے اعلان کیا کہ ہم جب اگلے دو ماہ کے بعد ملیں گے تو ہر حلقے والا اپنے ساتھ ایک جماعت لے کر آئے گا، یعنی 75 حلقہ جات تو 75 جماعتیں۔انشا اللہ۔ ہر حلقے کے سامنے چونکہ روزمرہ معاملات کے علاوہ ایک نیا ٹارگٹ تھا، اس لیے انہوں نے ایک نئے جذبے سے سرشار ہوکر محنت کی۔ اور پھر دو ماہ کے بعد مرکز میں ایک عجیب منظر تھا۔ 75 میں سے 52 حلقہ جات اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے تھے۔

یا پھر ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ہمارے سیاستدان جشن آزادی کے موقع پر اپنی تقاریر کے دوران ندیم افضل چن کی طرح اپنے مخالفین پر تنقید کرنے کے بجائے یہ کہتے کہ میں جب اقتدار میں تھا تو میں نے 150 میں سے 140 دیہات میں گیس پہنچا دی تھی۔ آپ بتائیے کہ آپ نے کیا کیا؟ یعنی خود کو اور مخالفین کو ٹارگٹ دیے جاتے۔

وزیراعظم بجائے روایتی تقریر پڑھنے کے کچھ یوں گویا ہوتے کہ آج ہم یہاں کھڑے ہیں، اگلے برس کے ہمارے یہ عزائم ہیں اور اس کےلیے ہمارے پاس یہ منصوبے ہیں کہ ہم اس طرح یہ عزائم حاصل کریں گے۔ اپنے لیے ترقی کے اہداف مقرر کیے جاتے۔

بیرون ملک موجود ہمارے سفیر حضرات سفارت خانے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے، تقاریر، تقاریب میں شمولیت، خطابات کے ساتھ اپنی کارکردگی بھی بتاتے۔ آئندہ کے عزائم اور ان کو حاصل کرنے کے طریقہ کار بھی بیان کیے جاتے۔ مجھے یاد ہے ناروے میں ہمارے سفیر عطاالحق قاسمی (سابقہ) نے ایک کالم میں اپنی کارکردگی کچھ یوں بیان کی کہ سفارت کاری کے دوران میں نے محسوس کیا ناروے میں پاکستانی زیادہ ہیں لیکن پاکستانی چاول کی فروخت کم ہے۔ میں نے تمام پاکستانی فروخت کاروں سے ملاقاتیں کیں، انہیں اس بات پر قائل کیا کہ آپ صرف پاکستانی چاول کو فروغ دیں گے، جس کے بعد ناروے میں پاکستانی چاول کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔

بیرون ملک موجود ہمارے سفیر اگر پاکستان کےلیے وقت نکالیں، میڈ اِن پاکستان پروڈکٹس کی ترقی کےلیے کام کریں، تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری ایکسپورٹس میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، روپے کی قدر میں بہتری آئے گی۔ نہ صرف روپیہ بلکہ سفیر محترم کی قدر میں بھی اضافہ ہوگا اور انہیں آنے والے سال میں تقریر کےلیے تازہ مواد بھی میسر آسکے گا، بالخصوص اگر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، دیگر خلیجی اور امریکا، برطانیہ جیسے ممالک جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے، اگر ان ممالک میں موجود ہمارے سفیر میڈ اِن پاکستان کےلیے متحرک ہوجائیں، روزانہ، ہفتہ واری، ماہانہ، سالانہ ملاقاتیں کی جائیں، پاکستانی پروڈکٹس کے فروغ کےلیے اپنے قیمتی وقت میں سے معمولی وقت صرف کیا جائے اور پاکستانی چاول، سبزیاں، مصالحہ جات بالخصوص حلال گوشت کی فروخت میں اضافے کےلیے حکمت عملی ترتیب دی جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہم لینے والے ہاتھ کے بجائے دینے والا ہاتھ بن جائیں گے۔

آئیے ہم سب عہد کریں جو ہوا سو ہوا، ماضی میں اگر ہم نے ملک کےلیے کوئی خدمت سرانجام دی بھی ہے تو اسے تھوڑا سمجھتے ہوئے آئندہ کےلیے عزم کریں کہ ہم مادر وطن کےلیے کام کریں گے۔ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، میڈ اِن پاکستان کو فروغ دیں گے۔ اپنے اندر موجود برائیوں کو دھیرے دھیرے ختم کریں گے تاکہ ایک سال کے بعد جب 76 واں جشن آزادی منا رہے ہوں تو ہم روایتی تقاریر، کیک کاٹنے، پرچم لہرانے کے علاہ پاکستان کےلیے اپنی کارکردگی بھی بتارہے ہوں۔ ہمارے اندر کہیں یہ اطمینان ہو کہ ہم نے ملک کےلیے کچھ کیا ہے۔ بصورت دیگر ہماری سالگرہ ڈھول تماشے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگی اور ہمارے اپنے ہی کچھ لوگ یہ کہہ کر ہمارا مذاق اڑانے کی کوشش کررہے ہوں گے کہ ہمارا دشمن سالگرہ پر بجلی سے چلنے والی کار لانچ کررہا ہے جب کہ ہم نیا ترانہ ریلیز کررہے ہیں۔ کار سے یاد آیا ہم نے بھی بجلی سے چلنے والی کار تیار کرلی ہے جس کی پیداور 2024 تک شروع ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں