تقسیم برصغیر دیکھنے والے بزرگ آبیتی بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے
پاکستان پہنچنے کے بعد یہاں ہیضے کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، شیرمحمد
لاہور:
سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہونے سے پہلے جب ریفرنڈم ہواتوہمارا علاقہ میاؤلی ضلع گڑگاواں انڈیا میں شامل ہوگیا تھا اورہمیں معلوم تھا کہ اب ہمیں ہجرت کرناپڑے گی، سکھوں اورہندوؤں کے جھتے مسلمانوں کے محلوں اورآبادیوں پرحملے کیے، خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں، اُن کے جسم کے نازک حصے کاٹے گئے، سینکڑوں خواتین نے اپنی عزت بچانے کے لئے کنوؤں میں کود کرزندگی کاخاتمہ کرلیا تھا، سینکڑوں میل کاسفرطے کرکے پاکستان پہنچے تویہاں ہیضے کی وباسے بچوں سمیت کئی افرادکی موت ہوگئی،انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والاشاید ہی کوئی خاندان ایسا ہوگا جس کا کوئی فردراستے میں شہید نہ کردیا گیاہو۔
سنہ 1947 میں ہونے والی تقسیم کی کہانی سناتے ہوئے لاہورکے سرحدی علاقہ نروڑکے رہائشی بزرگ شیرمحمد آبدیدہ ہوگئے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے ساتھ قیام پاکستان کی یادیں بیان کرتے ہوئے شیرمحمد کاکہناتھا ان کے علاقے سے مسلم لیگ کے امیدوارمولانا جان محمدکامیاب ہوئے تھے لیکن جب علاقوں کی تقسیم ہوئی توان کا ضلع گڑگاواں ہندوستان میں شامل ہوگیا۔
شیرمحمد کے مطابق وہ اس وقت دس،گیارہ برس کے تھے جومحلے دیگربچوں اورنوجوانوں کے ساتھ مل کرنعرے لگایا کرتے تھے۔ 'لیکررہیں گے پاکستان،بن کے رہیگاپاکستان، پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ'۔
سکھوں اورہندوؤں نے مسلمانوں کی اقلیتی آبادیوں اورمحلوں پرحملے کرناشروع کردیئے تھے۔وہ لوگ جتھوں کی شکل میں حملے کرتے ، مسلمانوں عورتوں کی آبروریزی کی جاتی، نوجوان لڑکیوں کو اٹھاکرلے جاتے ،کئی خواتین کے نازک اعضا تک کاٹے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ملٹری والے بھی ہندوؤں کے جتھوں کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے گاؤں کے قریبی ایک گاؤں میں تمام مسلمانوں کو یہ کہہ کرایک بڑی حویلی میں اکٹھا کیا گیا کہ انہیں پاکستان بھیجا جائیگا ،رات کے وقت مسلمان مردوں کو حویلی کے ایک جبکہ خواتین کو دوسرے حصے میں رکھا گیا ، پھر آدھی رات کو وہاں ہندؤں اورسکھوں نے حملہ کردیا ،خواتین کی آبروریزی کی کوشش کی گئی درجنوں خواتین عزت بچانے کے لئے حویلی کے بڑے کنویں میں کود گئیں اوراپنی جانیں قربان کردیں۔
شیرمحمد کہتے ہیں ان کے گاؤں سے تین قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے تھے،پہلاقافلہ سترہ اگست اوردوسرا 21 اگست کو روانہ ہوا، خواتین، بچوں اوربزرگوں کو ٹرین میں بٹھادیا گیا تھا، وہ بھی ٹرین میں ہی سوارہوئے تھے باقی لوگ بیل گاڑیوں پرتھے۔
راستے میں بھٹنڈہ ریلوے اسٹیشن پر سکھوں اورہندوؤں نے ٹرین پرحملہ کرنے کی کوشش کی لیکن انگریزافسرنے فوج کی مدد سے یہ کوشش ناکام بنادی تھی۔ وہ لوگ ٹرین سے فاضل کا بنگلا پہنچے پھروہاں سے ملتان اورقصورپہنچے۔
جب پاکستان پہنچے تو قصور میں ہیضہ کی وباپھیلنے سے ان کے بچوں سمیت کئی افراد کی موت ہوگئی تھی۔ قصورکے بعد لاہور میں کئی ہفتوں تک کیمپوں میں قیام کرناپڑاجہاں انہیں راشن ملتاتھا، مقامی لوگ بھی مدد کرتے تھے اوربالاخران کے بزرگوں کو لاہورکے سرحدی علاقہ نروڑ،ساہنکے، واہگہ، بھانوچک، تھے پورہ، کھڑک، چنڈیرکے علاقوں میں جگہ الاٹ ہوئیں۔
شیرمحمد نے بتایا ان کے خاندان اورگاؤں کے کئی لوگ کچھ عرصہ یہاں رہے لیکن پھرسندھ کے بارڈرکے راستے واپس انڈیا چلے گئے ،آج بھی ہندوستان کے اس گاؤں میں جہاں سے وہ لوگ ہجرت کرکے آئے تھے ان کے خاندان آباد ہیں وہ خود بھی 1984 میں ایک بارواپس وہاں گئے تھے
نروڑگاؤں واہگہ سرحد کے قریب ہے ،قیام پاکستان سے قبل نروڑسمیت بارڈرایریا کے زیادہ تردیہات میں سکھ اورہندوآباد تھے، آج بھی سکھوں اورہندوؤں کی پرانی حویلیوں ،گورودواروں اورعبادت گاہوں کے آثاریہاں موجود ہیں۔ بھارت سے اکثراوقات سکھ فیملیاں اپنا آبائی گاؤں اورگھردیکھنے یہاں آتی ہیں۔
نروڑگاؤں کے ہی رہائشی ایک اوربزرگ روشن دین نے بتایا ان کے والد چاربھائی تھے۔ ان کاخاندان بیل گاڑی پراورپیدل ہجرت کرکے یہاں پہنچاتھا۔ ان کے چاچا سمیت خاندان کے کئی افرادراستے میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے والد جیسے ہی پاکستان کی سرزمین پرپہنچے ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ جو لوگ واہگہ بارڈرکے راستے امرتسراوردہلی سے لاہورمیں داخل ہوئے تھے ان کے ساتھ زیادہ ظلم وستم ہوا، امرتسرکے قریب مسلمان مہاجروں سے بھری تین ٹرینوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ ہندوستان سے پاکستان آنیوالا ریلوے ٹریک یہاں قریب سےہی گزرتا ہے۔ کٹے ،پھٹے انسانوں کولیکرجب یہ ٹرین اٹاری سے واہگہ کے علاقہ میں داخل ہوئیں تو یہاں کہرام مچ گیا۔ پھرردعمل کے طورپریہاں گجرات، سیالکوٹ، جہلم ،لاہور، شیخوپورہ یہاں سے جو سکھوں اورہندوؤں کے قافلے انڈیا جارہے تھے مسلمانوں نے ان کونقصان پہنچایا۔ دونوں طرف خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔
روشن دین کہتے ہیں اس آزادی کی ہمیں بہت بڑی قیمت اداکرناپڑی تھی،آج بھی جب وہ منظرآنکھوں کے سامنے آتے ہیں تورونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کو یہ کہانیاں سناتے ہیں تاکہ انہیں احساس ہوسکے کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے حاصل ہوا اورہمیں اس کی تعمیرترقی اورخوشحالی کے لئے اپناکرداراداکرناہے۔