عید الاضحیٰ دکھاوے کی قربانی کیوں

پاکستان سمیت کئی ممالک میں سخت بد انتظامی دیکھنے کو ملتی ہے


[email protected]

PARIS: عید الاضحیٰ ہمارا مذہبی تہوار جسے ہم سنت ابراہیمی ؑ کی یاد میں مناتے ہیں۔ اس اسلامی تہوار کی عالم اسلام میں تیاریاں پورے زور شور سے کی جاتی ہیں، گھر گھر قربانی کے جانور قربان ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔

کئی ممالک میں تو اس حوالے سے خاصے بہتر انتظامات ہوتے ہیں مگر پاکستان سمیت کئی ممالک میں سخت بد انتظامی دیکھنے کو ملتی ہے۔ قربانی کے تین دن گلی گلی کا منظر ''قابل دید'' ہوتا ہے۔ ہر جگہ جانوروں کی آلائشوں کا ڈھیر، آپ کا منتظر ہوتا ہے جن سے بدبو بھی پھیلتی اور ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جانور سعودی عرب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد قربان کیے جاتے ہیں مگر وہاں قربانی کا ایسا شاندار انتظام موجود ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، نہ کہیں تعفن، نہ کہیں آلائشیں اور نہ ہی گلی گلی قربان گاہیں، نظر آئیں گی۔

خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے مگر ہمارے اندر جو چیز سب سے زیادہ پروان چڑھ رہی ہے وہ ہے دکھاوا ۔ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے قربانی کا پیغام دیا ہے، ہم اس سے کنارہ کش ہو چکے ہیں، دوسروں کے حقوق چھین کر اور جھوٹ بول کر ''قربانی'' دینے سے یا محض قرب و جوار میں اپنا اسٹیٹس سمبل بحال رکھنے کے لیے نہ تو ثواب ملتا ہے اور نہ قربانی کے اصل مقاصد پورے ہوتے ہیں۔

سب سے اہم بات تو یہ کہ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے یہاں کی 60فیصد آبادی غریب ترین ہے، عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کے لیے عالمی پیمانہ دو امریکی ڈالر روزانہ آمدنی ہے، یعنی تقریباً 4سو پاکستانی روپے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی 21 فیصد آبادی میں لوگوں کی روزانہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔

30فیصد جو خط غربت سے اوپر زندگی گزار رہے ہیں ان کا معیار زندگی بھی دیکھ لیں... ان میں سے ایک فیصد شاہانہ زندگی گزار رہا ہے 20فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے اور 9فیصد چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اب ایسے حالات میں آپ مجھے بتائیں کہ ان میں سے کتنے فیصد لوگ اپنی ''ناک'' رکھنے کی خاطر قربانی دے رہے ہیں اور کتنے فیصد خالص اللہ کی رضا کے لیے؟ حالیہ عیدِ بقر میں 60ہزار سے تین لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ ہیں اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ ہے۔

ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے 30سے 50 ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے کم تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی 17ویں، 18ویں یا 20گریڈ کا آفیسر بھی اپنی حلال کمائی میں سے کیسے قربانی دے سکتا ہے؟ مثلا ً اگر آپ کی تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے بھی ہے تو ذرا بتائیں کہ اس تنخواہ میں گھر کا کچن چلے گا۔

بچوں کی فیسیں دیں گے، روز مرہ کے اخراجات و یوٹیلٹی بلز دیں گے یا قربانی کریں گے؟ اور پھر اگر آپ کی قربانی میں ایک پائی بھی حرام پیسوں کی شامل ہوگئی تو پھر کس بات کی قربانی؟ اس معاشرے میں جہاں ہزاروں بچیاں غربت کی بنا پر اپنے ہاتھوں کے پیلے ہونے کی منتظر رہتی ہیں، وہاں کئی کئی لاکھ کے سجے سجائے جانور قربانی کے لیے خرید کر ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ بھاری بھرکم بکرا خریدنے کے لیے بندے کی جیب کا بھاری بھرکم ہونا ضروری ہے ۔

دنیا بھر میں بھی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے مگر وہاں منظم انتظام کیا جاتا ہے۔ ترکی میں بھی قربانی کرنے کا منظم طریقے اور جدید سہولیات سے استفادہ کیا جاتا ہے، گلی محلے میں جانور کو ذبح نہیں کرسکتے... برطانیہ میں ان دنوں زیادہ مقبول طریقہ یہ ہے کہ اکثر حلال میٹ کی دوکانیں آپ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی سہولت فراہم کر دیتی ہیں۔ پورے یورپ میں عید کے موقع پر عارضی ذبح خانے قائم کر دیے جاتے ہیں جہاں لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ہر شہر کی انتظامیہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنے کے لیے باقاعدہ کچھ جگہوں کا انتظام کرتی ہے تاکہ لوگ مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیںجانور نہ کریں۔ وہاں بھی حکومت کی طرف سے رائج کردہ قربانی کا آن لائن نظام عوام میں مقبولیت اختیار کر رہا ہے ، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام کو سسٹم پر اعتبار آنا شروع ہوگیا ہے۔

بہرکیف ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے ، یہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمے داری ہے ، کہ ہم اپنی قربانی میں تقویٰ پرہیز گاری کو شامل کرکے جھوٹ اور کرپشن کو اس ملک سے نکال باہر پھینکیں، صفائی ستھرائی کا خود سے اہتمام کریں۔ قربانی کرنے کے لیے حکومتی سطح پر انتظامات ہونے چاہیئں۔ خدا کرے کہ ارض پاک پر خوشیوں کی بارش برستی رہے،امن وامان ہو، عید کی خوشیوں والا سورج ہمیشہ طلوع ہوتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں