سدھو موسے والا ملتان کے ضمنی انتخاب میں
سدھو موسے والا کے بہیمانہ قتل کی خبر بھارتی پنجاب کے عوام اور سرکار پر بم بن کر گری
RAWALPINDI:
17جولائی کو پنجاب میں جن20صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں ایک حلقہ ملتان کا بھی ہے :پی پی 217۔یہاں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے، زین قریشی، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
اپنے صاحبزادے ہی کے حلقے میں کمپین کرتے ہُوئے گزشتہ روز شاہ محمود قریشی نے فرطِ جذبات سے یہ انکشاف کیا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں صوبائی نشست پر انھیں شکست دینے والی پی ٹی آئی ہی تھی ۔ شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا: 217والو، جاگو!ملتان کے مذکورہ انتخابی حلقے میں آج کل ایک انتخابی پوسٹر زبان زدِ خاص و عام بنا ہُوا ہے۔
زین قریشی کے ایک جہازی سائز انتخابی پوسٹر پر جہاں زین قریشی ، شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے رنگین تصاویر چھپی ہیں، وہیں ممتاز بھارتی گلوکار سدھو موسے والا کی بھی ایک بڑی تصویر شایع کی گئی ہے ۔ زین قریشی صاحب کہتے ہیں:''مجھے نہیں معلوم سدھو موسے والا کی یہ فوٹو کس نے اور کیوں چھاپ دی ہے اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ لیکن جس نے بھی یہ فوٹو چھاپی ہے، اُس کا شکریہ کہ اس تصویر کی وجہ سے ہمارا یہ پوسٹر بہت زیادہ وائرل ہُوا ہے۔'' آیے دیکھتے ہیں کہ یہ سدھو موسے والا تھا کون ؟ اور وہ ملتان کی سیاست میں کیسے گھس آیا؟
شبھ دیپ سنگھ سدھو عرف سدھو موسے والا بھارتی پنجاب کا معروف گلوکار تھا۔ اُس کے گانوں نے بھارت کے ساتھ ساتھ دُنیا کے ہر اُس خطے میں دھومیں مچا رکھی تھیں جہاں جہاں پنجابی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ برطانیہ اور کینیڈا کی سکھ پنجابی کمیونٹی تو اُس کے گیتوں کی دیوانی ہو رہی تھی۔ شہرت اور دولت سدھو موسے والا پر ٹوٹ کر برس رہی تھی۔روز بہ روز اُس کی مشہوری اور دولت جتنی بڑھ رہی تھی، اتنے ہی ہر لمحہ اُس کے دشمن بھی بڑھ رہے تھے۔
شبھ دیپ سنگھ'' سدھو موسے والا'' اس لیے کہلاتا تھا کیونکہ وہ بھارتی پنجاب کے ایک گاؤں'' موسی'' میں پیدا ہوا تھا۔ 29 سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ بھارتی پنجاب کا محبوب ترین سنگر بن چکا تھا۔ اسلحے، ٹریکٹروں اور مہنگے کتوں کے ساتھ اُس کی ماڈلنگ بھی نوجوان سکھوں کے لیے بڑی پُر کشش بن رہی تھی۔
پیسہ، شہرت اور محبوبیت آئی تو سدھو موسے والا کے دل میں سیاست کرنے کی خواہش بھی انگڑائیاں لینے لگی۔اُس کی کوشش اور خواہش پر کانگریس پارٹی نے اُسے اپنا ٹکٹ جاری کر دیا۔
یوں اُس نے مارچ 2022میں ہونے والے بھارتی پنجاب کے صوبائی انتخابات میں بھرپور حصہ تو لیا مگر ناکام رہا۔گلوکاری کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں کودنا سدھو موسے والا کی شاید بڑی غلطی تھی۔ بھارتی پنجاب کی سیاست کو برادری ازم ، منشیات فروشوں،اغوا کاروں، بھتہ خوروں اور پیشہ ور گنگسٹرز نے بے حد آلودہ کررکھا ہے ۔ بھارتی پنجاب کی پولیس بھی ان کے سامنے بے بس ہے ۔
سدھو موسے والا سیاست میں آیا تو بھارتی پنجاب کی سیاست کے منہ زور یہ عناصر اُس کے تعاقب میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کنسرٹ کے لیے کینیڈا گیا تو وہاں بھی کئی پنجابی گینگسٹرز نے اُسے دھمکیاں دی تھیںکہ ان گینگسٹرز کی اصل جڑیں بھارتی پنجاب میں بتائی جاتی ہیں۔سدھوموسے والا نے اپنے گاؤں میں سفید محل نما کوٹھی تعمیر کروائی تو یہ بھی اُس کے دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی تھی۔
مبینہ طور پر دِلّی کی بدنام زمانہ تہاڑجیل میں ہائی سیکیورٹی میں قید'' بشنوئی گینگ ''کے سربراہ، لارنس بشنوئی، نے بھی سدھو موسے والا کو چند ماہ قبل قتل کی دھمکی دی تھی۔ اِنہی خطرات کے کارن بھارتی پنجاب سرکار نے سدھو موسے والا کو چار مسلح محافظ بھی دے رکھے تھے جو دن رات اُس کے ساتھ رہتے تھے۔
مئی2022 کے وسط میں، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ،بھگونت سنگھ مان، نے کئی عوام پسند اور انقلابی فیصلے کیے۔ ان میں ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ بھارتی پنجاب میں جن400 غیر سرکاری وی آئی پی افراد کو سرکاری سیکیورٹی دی گئی ہے، سب سے واپس لی جائے۔
اس فیصلے پر بھارتی پنجاب کے اہم اور طاقتوروں کی طرف سے بہت احتجاج کیا گیا لیکن وزیر اعلیٰ نے اپنا فیصلہ واپس لینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس فیصلے کی لپیٹ میں سدھو موسے والا بھی آیا اور اُس سے زیادہ تر سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔29مئی2022کی شام پانچ بجے سدھو موسے والا اپنے چند دوستوں کے ساتھ اپنے گاؤں سے نکلا۔ویسے ہی گھومنے پھرنے۔ وہ اپنی جدید بلٹ پروف گاڑی میں بھی جا سکتا تھا لیکن وہ اپنی سادہ جیپ میں روانہ ہوا۔ ابھی وہ اپنے گھر سے چار کلومیٹر کے فاصلے ہی پر گیا تھا کہ ُاس پر حملہ ہو گیا۔
کہا گیا ہے کہ جدید اور خود کار ہتھیاروں سے مسلح 8 حملہ آوروں نے بیک وقت اُس پر گولیوں کی بارش کر دی۔ مبینہ طور پر 30 گولیاں سدھو موسے والا کو لگیں۔ حملہ آور کامیاب آپریشن کے بعد فرار ہو گئے۔ خون میں لت پت سدھو موسے والا کا جسم قریبی اسپتال لایا گیا لیکن اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی پنجاب کا یہ گھبرو اور محبوب گلوکار دُنیا چھوڑ چکا تھا۔
سدھو موسے والا کے بہیمانہ قتل کی خبر بھارتی پنجاب کے عوام اور سرکار پر بم بن کر گری ۔ فوری طور پر کہا جانے لگا کہ اگر وزیر اعلیٰ( بھگونت سنگھ مان) سدھوموسے والا کی سیکیورٹی ختم نہ کرتے تو یہ قتل بھی نہ ہوتا۔بی جے پی کی گرفت میں جکڑا بھارتی میڈیا اس بات کو خوب اُچھال رہا تھا کہ مشرقی پنجاب کا یہ وزیر اعلیٰ ''عام آدمی پارٹی'' کا ہے اور یہ پارٹی مودی اور بی جے پی کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹک رہی ہے ۔ اس شور نے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو سخت دباؤ میں گھیر لیا۔ بچت کے لیے وزیر اعلیٰ نے فوری ٹویٹ بھی کر دی جس میں مقتول گلوکار کے بارے میں غم کے اظہار کے ساتھ اچھے الفاظ ادا کیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ قاتل بچ نہیں پائیں گے۔ ایک جوڈیشل انکوائری بھی بٹھا دی گئی ۔
خود وزیر اعلیٰ مقتول کے گھر بھی تعزیت کے لیے گئے لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ پر دباؤ بڑھتا ہی گیا۔30مئی کی شام جب سدھو موسے والا کی نعش کو شمشان گھاٹ پر آگ دکھائی گئی تووہاں انسانوں کا ایک انبوہِ کثیر تھا۔ شمشان گھاٹ پر لے جانے سے قبل سدھو کی والدہ اور بہنوں نے مقتول کو دلہے کی طرح سجا کر اپنے آخری ارمان بھی پورے کیے۔
بھارتی پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار گینگسٹر ، لارنس بشنوئی، نے اعتراف کیا ہے کہ سدھو موسے والا کا قتل اُسی کی منصوبہ بندی تھی۔اب جب کہ شبھ دیپ سنگھ عرف سدھو موسے والا کے قاتل گینگ نے مبینہ طور پر قتل کی ذمے داری قبول کر لی ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب پر دباؤ ہے کہ وہ قاتلوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال رہے؟
کہا گیا ہے کہ قاتل گروہ کامبینہ سرغنہ(گولڈی براڑ) کینیڈا میں مقیم ہے۔ اس لیے اس پر ہاتھ ڈالنا دشوار ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارتی پنجاب اور بھارت بھر میں نئے سرے سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ طاقتور گینگسٹروں ( ڈمپی چند بھان،راکی فاضلکا،وکی گونڈر،جیپال سنگھ بھلر، دیوندر بمبیہا،ہر وندر رنڈا) کا کیسے صفایا کیا جائے؟ ان بدمعاشوں کے سرپرستوں پر قانون کیسے جھپٹے؟ ساتھ ہی بھارتی پنجاب میں سرگرم گینگسٹروں کے پروفائل بھی سامنے آرہے ہیں جنھیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پورا بھارت ان گینگسٹروں کے نرغے میں ہے۔