وفاقی بجٹ کی منظوری اور فلاحی معیشت

تنخواہ داروں کے لیے ریلیف ختم کردیا گیا ہے، اس فنانس بل میں آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق ترامیم کرلی گئی ہے



وفاقی بجٹ منظور کرلیا گیا ہے جس کا حجم 9,502 ارب روپے ہے پاکستان میں ہر سال جون کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور اسی مہینے کے تقریباً آخر تک منظور کرکے نئے مالی سال یکم جولائی سے اس کا نفاذ کر دیا جاتا ہے۔

بجٹ سازی کا تصور 1930 کی کساد بازاری کے بعد عام ہوا۔ اس سے قبل بجٹ سازی کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ 1930 کے کساد بازاری کے بعد اس وقت کی حکومتوں میں معیشت میں اپنا کردار بڑھانے اور مداخلت کا تصور پیدا ہوا۔ 1936 کی بات ہے جب پروفیسر کینز نے اپنی مشہور و معروف کتاب میں اس نظریے سے آگاہ کیا تھا کہ حکومتوں کی طرف سے منڈی میں مداخلت ضروری ہے۔ کینز نے فلاحی معاشیات اور حکومتی مداخلت اور ذمے داریوں پر زور دیا۔

لہٰذا ان ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے حکومت کو آمدن کے نئے طریقے تلاش کرنے پڑے جس کے لیے باقاعدہ حساب کتاب کی ضرورت پیدا ہوئی لہٰذا یہیں سے جدید بجٹ سازی کا تصور عام ہوا۔

پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ آمدن کے ذرایع کم رہے اور اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا۔ لہٰذا اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتے رہے۔ پھر قرض اتنا بڑھتا رہا کہ سود تک کی ادائیگی کے لیے قرض لیتے رہے۔ لہٰذا ہر بجٹ خسارے کا بنتا رہا۔ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسوں کی بھرمار شروع ہوئی۔ اب تو جن کی تنخواہ 50 ہزار روپے سے زائد ہے ان پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔

بجٹ برائے 2022-23 کی منظوری دے دی گئی ہے۔ تنخواہ داروں کے لیے ریلیف ختم کردیا گیا ہے، اس فنانس بل میں آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق ترامیم کرلی گئی ہے البتہ زرعی مشینریوں پر کسٹم ڈیوٹی، سولر پینل پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ منظور شدہ بجٹ کے مطابق تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے متعارف کرائے گئے 7 سلیب میں سے کم سے کم قابل ٹیکس آمدن سالانہ 6 لاکھ روپے سے زائد کردی گئی ہے۔ 6لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک آمدن پر 2.5 فی صد ٹیکس لیا جائے گا۔

12 لاکھ روپے سے 24لاکھ روپے تک آمدن پر 15 ہزار روپے فکسڈ اور 12.5 فی صد ٹیکس لیا جائے گا۔ یہاں پر سب سے زیادہ نقصان میں وہ لوگ ہوں گے جن کی سالانہ آمدن 70 یا 80 ہزار روپے ہوگی کیونکہ افراط زر کی شرح ہے کہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور ملک بھر کا ہی اکثریتی طبقہ ہے جن کی آمدن 50 ہزار سے 70 یا 80 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

کسی زمانے میں یہ طبقہ مڈل کلاس کہلاتا تھا لیکن اب یہ طبقہ اس لیے غریب اور سفید پوش طبقہ ہے کہ مہنگائی کے عالم میں ان کا گزارا ناممکن ہو چکا ہے۔ کیونکہ ماہ جون میں افراط زر کی شرح 16 فی صد کے قریب تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ساڑھے بارہ سال میں یہ شرح تیز ترین ہے۔

تیل اور بجلی کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کی خواہاں ہے۔ اس وقت 5 یا 6 افراد کے گھرانے کا بجلی کا ماہانہ بل تقریباً 10 ہزار روپے کے قریب آتا ہے اور اگر کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں اور وہ بھی شہری علاقوں میں تو کم ازکم کرایہ 25 تا 30 ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ پہلے دو طرفہ کرایہ 50 یا 60 روپے ادا کرنے والے اب 200 روپے سے زائد ادا کر رہے ہیں۔

یعنی 6000 روپے ماہانہ اخراجات اس کے علاوہ بچوں کی فیسیں ان کے لیے وین چارجز وغیرہ اسی میں سب ملا کر 60 یا 70 ہزار روپے پورے ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اب اس کے لیے گوشت، مرغی، سبزی، دال، آلو، پیاز، دودھ دہی کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کوئی پھل خریدنا دودھ کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان تمام اخراجات کی موجودگی میں بہت سے افراد دودھ کی حد میں ہی کٹ لگارہے ہیں۔

پہلے دو لیٹر دودھ خریدنے والے ایک لیٹر پر آگئے ہیں کیونکہ اب دودھ خریدنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ پنشنرز کو صرف 5 فیصد ہی اضافہ دینا سراسر ظلم ہے۔ البتہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ایک بات جوکہ خوش آیند ہے کہ مہمند ڈیم اور دیامر بھاشا ڈیم کو وقت سے قبل مکمل کرنے کے لیے اضافی رقم مختص کردی گئی ہے۔

اس سے قبل ایک کالم میں، میں نے لکھا تھا کہ جو بھی منصوبہ وقت سے قبل مکمل کرانے کے لیے یا مکمل ہونے پر کوئی انعام یا مشاہرہ وغیرہ رکھا جائے تاکہ اس منصوبے پر کام کرنے والے افراد جوش و ولولے، پختہ عزم و ارادے کے ساتھ کام کو جلد ازجلد تکمیل کے لیے ہر ممکن طریقے سے جدوجہد اور کوشش کریں۔ اس طرح بتدریج پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا۔

سرکاری اداروں میں نئی گاڑیوں اور فرنیچر وغیرہ کی خرید پر پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ اب یہ ہونا چاہیے کہ وہاں کی بڑی اور قیمتی گاڑیوں کو فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں داخل کرائی جائے۔ اگر حکومت نے اس کے لیے کوئی مہم چلائی تو اس کی کامیابی سے بھی حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوگی۔ آزمائش شرط ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں چلے جائیں سیکڑوں یا بیسیوں قیمتی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں گی۔

نوجوانوں میں کاروبار کے فروغ کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلا سود قرض دیا جائے گا۔ کچھ تو خیال کریں صرف 5 لاکھ روپے اس مہنگائی کے دور میں رقم کم ازکم 15 لاکھ کردیں اور بلاسود انتہائی آسان ترین بغیر کسی سروس چارجز یا اور کئی اقسام کے چارجز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شرائط ہیں ان کو ختم کرکے قرض فراہمی آسان ترین بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |