اسلامیات کا مضمون اور طلبا کی عدم دلچسپی

دوسرے مضامین کے مقابلے میں اسلامیات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو کہ دینی چاہیے


اسلامیات کے مضمون کو اچھا انسان بنانے کےلیے بھرپور عملی انداز سے پڑھایا جائے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مضمون کا نصاب بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ بڑی محنت اور وقت طلب کام ہے۔ اس کی تدوین میں ماہرینِ تعلیم کی ایک پوری ٹیم تشکیل پاتی ہے اور پھر یہی ٹیم دن رات ایک کرکے پورا نصاب بناتی ہے۔ اسلامیات کے نصاب میں بھی ماہر اساتذہ کی ٹیموں نے کام کرکے ایک معیاری نصاب تشکیل دیا ہے۔

عام طور پر اسکولوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اسلامیات کا مضمون پڑھانے کےلیے ایک استاد جب کمرۂ جماعت میں داخل ہوتا ہے، تو طلبا جسمانی طور پر کمرۂ جماعت میں ہوتے ہیں، لیکن ذہنی طور پر ان کا دھیان دوسرے مضامین پر لگا ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ طلبا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسلامیات کا پیریڈ جلد از جلد ختم ہو (ہر جگہ ایسا نہیں ہے) تاکہ دوسرے مضامین کی طرف توجہ دیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ مضمون اتنا پُرکشش ہونے کے باوجود بھی کمرۂ جماعت میں طلبا کےلیے ایک ثانوی حیثیت کیوں رکھتا ہے؟ آئیے! ذرا اُن وجوہات کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامیات کے مضمون کو کمرۂ جماعت میں طلبا کےلیے کس طرح دلچسپ بنایا جاسکتا ہے؟

مضمون پر مکمل عبور نہ ہونا


وجوہات کو دیکھا جائے تو اُن میں سے ایک اساتذہ کا 'اسلامیات' کے مضمون پر مکمل عبور نہ ہونا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک اسلامیات کا استاد صرف چنیدہ معلومات لے کر کمرۂ جماعت میں جاتا ہے اور اُن چیزوں سے ہٹ کر اگر کچھ نئی چیز نظر آجائے تو جدوجہد کرتا نظر آتا ہے اور پھر ان چیزوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جلد از جلد صَرفِ نظر کرتے ہوئے آگے نکل جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اکثر اسکولوں میں دیکھا گیا ہے کہ دوسرے مضامین کے مقابلے میں اسلامیات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو کہ دینی چاہیے۔ جس کو تھوڑی بہت اسلام کے بارے میں معلومات ہوتی ہے، اُسے (قلیل تنخواہ میں) رکھ لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔

سوالات کرنے کی حوصلہ شکنی


ایک اور وجہ جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ 'کمرۂ جماعت میں طلبا کو سوالات کرنے نہ دینا'۔ دورانِ لیکچر طلبا کو کچھ سمجھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو اُن کا وہ برملا اظہار 'سوال' کی صورت میں کرتے ہیں۔ اگر جواب نہ ملے تو مایوس ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے خاموش ہوتے ہیں کہ آخر تک خاموش ہی رہتے ہیں۔ اُنھیں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس طرح کے سوالات نہیں کرنے چاہئیں یا پھر ڈانٹ کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار طلبا کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب صرف روایتی انداز میں ہی دینا (نہ یہ دیکھنا کہ اس طالبِ علم کی عمر کیا ہے اور نہ ہی یہ دیکھنا کہ وہ کس سیاق و سباق میں سوال پوچھ رہا ہے) پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر بھی طالبِ علم سوائے خاموشی کے کچھ نہیں کرتا۔

حالاتِ حاضرہ سے بے خبری


ایک اور مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر (یاد رہے یہ اطلاق تمام اساتذہ پر نہیں ہوتا) اسلامیات کے اساتذہ حالاتِ حاضرہ سے بے خبر ہوتے ہیں اور یہی بے خبری اُن کےلیے کمرۂ جماعت میں پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ معاشرے میں کیا ہورہا ہے، کس طرح کے حالات سے عوام نبرد آزما ہیں؟ کچھ نہیں معلوم، بالکل بے خبری۔ اگر کوئی حالاتِ حاضرہ سے متعلق سوال کرلے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ پڑھائی پر توجہ دیجیے۔ اگرچہ پڑھائی پر توجہ دینا بھی ضروری ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ حالات حاضرہ سے باخبر رہا جائے۔

موضوعات کا اطلاق عصرِ حاضر سے نہ کرنا


ایک اور مسئلہ جو دیکھنے میں آیا ہے وہ یہ کہ نصاب میں موجود موضوعات کا اطلاق عصرِ حاضر سے نہیں کیا جاتا۔ جب اُن موضوعات کا تعلق عصرِ حاضر سے جوڑیں گے ہی نہیں تو طلبا کی دلچسپی کہاں پیدا ہوگی؟

اسمارٹ ٹیچنگ ٹولز سے ناواقفیت


اکثر اسلامیات کے اساتذہ اسمارٹ ٹیچنگ ٹولز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس ناواقفیت کی بنا پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ دوسرے مضامین کے اساتذہ کے مقابلے میں کافی پیچھے نظر آتے ہیں۔
یہ وہ مذکورہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے کمرۂ جماعت میں وہ تعلق قائم نہیں ہوتا جو ایک استاد اور طالبِ علم کے درمیان جڑنا چاہیے۔ (بلاشبہ اسلامیات کے تمام اساتذہ کے ساتھ یہ مسائل نہیں ہوتے بلکہ بہت ہی لائق و فائق ایسے اساتذہ بھی ہیں جن سے فیض حاصل کرنے کی خواہش ہر طالبِ علم کو ہوتی ہے)

حل کیا ہو؟


اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ کو سب سے پہلے اپنے مضمون پر فخرنا کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی یہ کہے کہ میں اسلامیات کا استاد ہوں تو معاشرے میں اُس کو وہ خاص اہمیت نہیں دی جاتی جو دوسرے مضامین کے اساتذہ کو دی جاتی ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن جب ایک استاد نے اسلامیات کا انتخاب کر ہی لیا ہے تو اب وہ فخر کرے اور دل سے قریب کرے۔ دل سے قریب کرے گا تو اُس کو تمام امور میں دلچسپی، شوق اور لگن ہوگا۔

مضمون پر عبور


کمرۂ جماعت کو پُرکشش بنانے کےلیے اسلامیات کا استاد اپنے مضمون پر عبور حاصل کرے۔ نصاب میں دی گئی ٹیکسٹ بک کا مطالعہ کرنے کے ساتھ صرف یہیں تک نہ رکے بلکہ اُس سے آگے بڑھ کر اپنی تفہیم میں اضافہ کرے، کیوں کہ 'ٹیکسٹ بک' ایک ٹول ہے باقی تو اصل آپ کا وہ علم ہے جو آپ کو مضمون سے متعلق دوسری کتابوں اور تجرِبات سے ملتا ہے۔ جب اسلامیات کے استاد بن ہی گئے ہیں تو اب یہ سوچیے کہ کچھ کرکے دکھانا ہے۔ دل و جان سے اپنے مضمون سے محبت کیجیے اور مطالعہ میں وسعت پیدا کرتے جائیے۔

بحث و مباحثہ


کمرۂ جماعت میں طلبا کو سوالات کی طرف راغب کیا جائے اور پھر اُن سوالوں سے متعلق (اپنی نگرانی میں) بحث و مباحثہ کرایا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کمرۂ جماعت میں ہر طالبِ علم کو بولنے کا موقع ملے گا اور اس طرح علم کے دریچے بھی مزید کھلتے چلے جائیں گے اور طلبا کو جوابات بھی ملتے جائیں گے۔

حالاتِ حاضرہ سے باخبری


اسلامیات کے ایک اچھے استاد کو 'حالاتِ حاضرہ' سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ ملک کی صورتِ حال کیا ہے؟ معاشی صورتِ حال میں کیا مسائل ہیں؟ وغیرہ۔ استاد باخبر رہے گا تو ملکی مسائل کو اپنے مضمون سے جوڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ مسائل کا حل بھی بتائے گا۔ جیسے، اگر کمرۂ جماعت میں موضوع 'زکوٰۃ' ہے تو اُسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کی معاشی صورتِ حال کیا ہے اور زکوٰۃ کس طرح معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہاں دو کام ہورہے ہیں، ایک حالاتِ حاضرہ سے باخبر ہونا دوسرا اپنے موضوع کو حالاتِ حاضرہ سے جوڑنا۔ موضوعات کا اطلاق عصرِ حاضر سے جوڑنا۔ اسلامیات ایک ایسا مضمون ہے جس کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے۔ طلبا کو صرف چیزوں کی تفہیم ہی نہیں کرائی جائے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اُن کے اطلاقات بھی بتائے جائیں تاکہ طلبا کے اذہان میں یہ بھی واضح ہوجائے کہ انھیں جو کچھ اسلامیات میں پڑھایا جارہا ہے اُن کا اطلاق کتنا ضروری ہے۔

اسمارٹ ٹیچنگ


اکیسویں صدی چیلنجز سے بھرپور ہے۔ دوسرے مضامین کے اساتذہ کی طرح اسلامیات کے استاد کو بھی اسمارٹ ٹیچنگ سے واقفیت ضروری ہے۔ اسمارٹ ٹیچنگ میں کمپیوٹر کا استعمال، ملٹی میڈیا کا استعمال، انٹرایکٹیو وائٹ بورڈ، مختلف سافٹ وئیر کا استعمال اور دوسرے ٹولز شامل ہیں۔ اسلامیات کا استاد جب ان ٹولز کو کمرۂ جماعت میں استعمال کرے گا تو نہ صرف وہ اپنے موضوع کو بہتر طریقے سے پڑھا سکے گا بلکہ طلبا کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہے گی۔

اکیسویں صدی میں ایک استاد کو مختلف چیلنجز سے مقابلہ کرنا ہے۔ بطورِ استاد، اسلامیات کے مضمون کو صرف آخرت اور ثواب کےلیے نہ پڑھایا جائے بلکہ آخرت و ثواب کے ساتھ ساتھ اچھا انسان بنانے کےلیے بھرپور عملی انداز سے پڑھایا جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں نہ صرف اس مضمون کی اہمیت عملی طور پر بڑھے بلکہ اس کے اثرات معاشرے پر بھی نظر آئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |