ڈاؤ یونیورسٹی نے سانس کے ذریعے کم خرچ ایچ پائیلوری ٹیسٹ پیش کر دیا

پاکستان میں ہیلی کوبیکٹر پائیلوری بیکٹیریئم انفیکشن عام ہے جو آنتوں کے سرطان کی وجہ بھی بن سکتا ہے


Staff Reporter June 22, 2022
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس نے ملک بھر کی تشخیصی تجربہ گاہوں میں سانس کے ذریعے ایچ پائلوری انفیکشن کا ٹیسٹ متعارف کرایا ہے جو تیز، مؤثر اور کم خرچ ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے سانس کے ذریعے (ہیلی کوبیکٹر پائیلوری) یا ایچ پائیلوری کی تشخیص کا تیز ترین، سہل اور زیادہ مؤثر ٹیسٹ یوریا بریتھ (یوبی ٹی) انتہائی کم نرخوں پر متعارف کروا دیا ہے جس میں سانس کی بدولت انفیکشن شناخت کیا جاسکتا ہے۔

پہلے مرحلے میں ٹیسٹ کی سہولت ڈی یو ایچ ایس کی مرکزی لیبارٹری سمیت 51 مقامات پر دستیاب ہوگی، جبکہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان کے عوام بھی جلد ہی یہ ٹیسٹ کراسکیں گے جوان علاقوں میں 59 شاخوں کی صورت میں موجود ہیں۔

ٹیسٹ سے متعلق افتتاحی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان میں 80 فیصد آبادی ایچ پائیلوری سے متاثر ہے جس کے لیے مؤثر اور فوری نتائج کے حامل ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں تھی۔

ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ایچ پائیلوری کی بعض اقسام سے معدے کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور تاخیر سے تشخیص ہونے کے باعث ایچ پائیلوری کے انفیکشن سے معدے میں السر ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق چھوٹی آنت میں 90 فیصد سے زائد السر کی وجہ ایچ پائیلوری ہے اسی لیے اس کی تشخیص فوری اور سہل کرنے کی ضرورت تھی جبکہ یوریا بریتھ ٹیسٹ 98 فیصد مؤثر ہے۔

یوریا بریتھ ٹیسٹ میں استعمال مشین پوائنٹ آف کیئر (پی او سی ون) کی افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر کے علاوہ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زاہد اعظم، ڈائریکٹر کمرشل آپریشنز ڈاؤ لیب سلیم چوہان، چیف ایگزیکٹو آفیسر اوٹسوکا پاکستان حنیف ستار، بزنس یونٹ ہیڈ معین الرحمن، ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز طارق شاہد، پروڈکٹ مینیجر عمارہ ابوبکر، فیلڈ مینیجر سہیل حسین ودیگر بھی موجود تھے۔

پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس موقع پر کہا کہ ایچ پائیلوری کی تشخیص کے یوں تو ایک سے زائد طریقے موجود تھے جس میں خون اور فضلے کے ذریعے بھی اس کی تشخیص کی جاتی تھی۔ خون سے تشخیص کا طریقہ اب تقریباً غیر مؤثر ہوچکا ہے چونکہ پاکستان میں کھانے پینے کی عادات اور غیر صحت مند کھانے پینے کی اشیاء کے استعمال سے معدے کے امراض خصوصاً ایچ پائیلوری کے کیسز بڑھ رہے ہیں، اس لئے فوری تشخیص اور علاج ضروری ہے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے اوٹسوکا پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حنیف ستار نے کہا کہ اوٹسوکا یوں تو نس کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہونے والی دوائیں بنانے کے حوالے سے معروف نام ہے، البتہ امراض کی تشخیص کی مشکلات کے پیشِ نظر اب مشینوں کی جانب بھی توجہ دی ہے اور دل کی شریانوں میں خون کی روانی میں رکاوٹ ختم کرنے کے لیے اسٹنٹ بھی متعارف کرائے ہیں۔

اس سے پہلے پی او سی ون مشین کے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ خون کے ذریعے ایچ پائیلوری کی تشخیص مؤثر نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ایک مرتبہ ایچ پائیلوری ہونے کے بعد علاج کے باوجود خون میں اس کے اثرات رہتے ہیں اس لیے خون کا ٹیسٹ اکثر مثبت آتا ہے اس کو ڈاکٹرز کی اصطلاح میں فالس پازیٹو کہا جاتا ہے۔ شرکا کو بتایا گیا کہ پی او سی ون مشین دنیا بھر میں 4065 مقامات پر نصب کی گئی ہے۔

پاکستان میں تمام بڑے شہروں میں نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز میں موجود ہے لیکن سرکاری شعبے میں پہلی مرتبہ پاکستان بھر میں ڈاؤ یونیورسٹی میں متعارف کروائی گئی ہے اس طریقے سے اس ٹیسٹ کی عام آ دمی تک پہنچ ممکن ہوجائے گی۔

انسانی فضلے کے ذریعے ایچ پائیلوری کی تشخیص مشکل اور غیر محفوظ ہے۔ نتائج کے حصول کے لئے 24 گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یوریا بریتھ ٹیسٹ سے 20 منٹ میں نتائج مل جاتے ہیں اور طریقہ بھی سادہ ہے جس میں صرف خالی بیگ میں سانس لینا پڑتا ہے کیونکہ ایچ پائیلوری انفیکشن میں جراثیم جسم میں موجود یوریا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کر دیتا ہے اور مشین آپ کے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ دکھاتی ہے۔

بریفنگ میں بتایاگیا کہ کئی دہائیوں سے ڈاکٹر زذہنی دباؤ، مرچ مصالحوں سے بھرپور کھانوں، تمباکو نوشی وغیرہ جیسی عادات کو معدے کے السر کی وجہ سمجھتے رہے لیکن 1982 میں سائنسی تحقیق میں ایچ پائیلوری کی دریافت سے پتہ چلا کہ معدے کے اکثر السر اس جرثومے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔