مہنگائی کا سونامی
قابل ملال ہے یہ امر کہ پاکستان کی 74سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں بلا مشروط اضافہ ہوا ہے
کراچی:
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پونے چاربرس میں ہی کلین بولڈ ہوگئی،یعنی اپنی آئینی مدت پانچ برس مکمل نہ کر سکی۔اقتدار اعلیٰ کی کرسی بڑی خطرناک ہے ،یہ کسی سے وفا نہیں کرتی۔
عمران خان کا مشن موروثی سیاست کا خاتمہ تھا، لیکن بد قسمتی سے ان کی پارٹی میں زیادہ تر وہی طبقہ اشرافیہ کے ممبران شامل تھے جو عر صہ درازسے پارلیمنٹ ہاوسز کے موروثی امین ہیں۔ یہ ممبران اسمبلی سوائے ڈیسک بجانے کے ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کرتے ۔یہ صرف ملک کے وسائل اور خزانہ کو لوٹ کر اپنا تجوریاں بھرتے ہیں ۔مراعات یافتہ طبقہ کی آل اولاد بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ان کا کلی اوڑھنا بچھونا ملک سے باہر ہی ہے۔پاکستان تو ان کے لیے زرخیز کھیتی ہے ۔ یہ بیرونی ممالک کی شہریت کے حامل بھی ہیں۔
یہ افراد ہرزمانہ میں کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ مل کر یا تو اقتدار میں اپنی اشرافی شخصیت کا جلوہ دکھاتے ہیں یا اپوزیشن کی بنچوں پربراجمان رہتے ہیں ۔بظاہر دانشور حلقے عمران صاحب کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے کہ وہ ایماندار اور کرپشن سے پاک ہیں، سچ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے اندر صرف ایک چیز کی کمی تھی وہ یہ کہ انھیں حکومت کی کاریگری اور داؤ پیچ کا قطعا کوئی تجربہ نہ تھا اور نہ ہی ان کی زندگی کا کچھ حصہ جیلوں کی نذر ہوا۔ کیونکہ یہاں کی جیلیں ہی صحیح معنوں میں نہ صرف ملک کا مقبول لیڈر بناتی ہیں بلکہ سیاست کے رنگ ڈھنگ اور اتار چڑھائوکا سلیقہ، عیاروں کے ساتھ عیاری کے گر بھی سکھاتی ہیں یوں عوام کی نظر میں وہ مقبول و مظلوم بھی ہو جاتے ہیں۔
عدم اطمینان کی تحریک کی کامیابی کے بعد ملک کے وزیر ا عظم کا قلمدان آپ کے اور ہمارے پیارے مشترکہ بھائی جناب شہباز شریف کے حصہ میں آیا ہے۔ ماضی کے نو ستاروں کی طرز پر اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور دیگر جماعتوں کے الحاق سے ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہو چکی ہے،جو عام انتخابات کے انعقاد تک عمران خان کی بقیہ مدت پوری کرے گی۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے بارے میں عام لوگوں کا تاثر مہنگائی میں بتدریج اضافہ تھا۔ ہم تو بحیثیت معاشیات و اقتصادیات کے طالب علم کے اتنا ضرور جانتے ہیں کہ طلب و رسد کے توازن قوت خرید(قیمت) میں تغیرات قدرتی امر ہو جاتا ہے ۔ منڈی کے اتار چڑھائو کا تجزیہ کیا جاتا ہے جب کسی شے کی پیداوار میں قلت رونما ہو جائے تو لامحالہ اس شے کی قیمت میں طلب کے تناسب سے اضافہ ہو جاتا ہے بر خلاف اس کے کہ اس شے کا کوئی نعم البدل نہ ہو، مگر یہاں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ مہنگائی کی بنیاد ہے۔
اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ یہاں غذائی پیداوار کی بہتات ہے صرف مسئلہ ہے زرعی اجناس کی منڈیوں تک اور ان منڈیوں سے صارف تک رسائی میں پٹرول اور ڈیزل کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ ایسی صورت حال میں معاشیات کا فارمولہ غیر موثر ہو کر رہ جاتا ہے۔
بہرحال قیمتوں میں اتار چڑھائو کے اثرات صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا اس گرائو سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں، مگر وہاں کے عوام شعور رکھتے ہیں۔ان کے رویے معاشرے میں مثبت انداز کے ساتھ ایسے مسائل پر قابو پا لیتے ہیں، جیسے جرمنی کی حکومت نے ایک مرتبہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان کیا تو وہاں کے عوام ایک گھنٹہ کے اندر اندر احتجاجاً سڑکوں پر اپنی گاڑیاں چھوڑ کراپنے گھروں کو چلے گئے ۔ مقتدرہ نے جب دس لاکھ سے زائد گاڑیوں کو سڑکوں پر دیکھا تو دو گھنٹوں کے اندر اندر حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ یہ ہیں زندہ قوموں کی نشانیاں۔
اسی طرح افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جہاں چالیس سال افغانوں اور امریکا اور اس کی اتحادی افواج سے گھمسان کی جنگ جاری رہی۔وہاں پٹرول کی قیمت پاکستانی روپے کی قدر میں 88 ہے اور ڈالر 95 کا ہے جب کہ پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول 210 روپے اور ڈالر 205کا ہے ۔ افغانستان چونکہ کرپشن فری معاشرہ ہے اور وہاں کے حکمران دیانتدار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہیں ۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال ہمار ے پڑوسی ملک ایران کی بھی ہے۔ یاد رکھیں ! جنگیں آبادیوں کو تباہ کرتی ہیں اور کرپشن نسلوں کو تباہ کرتی ہیں۔
قابل ملال ہے یہ امر کہ پاکستان کی 74سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں بلا مشروط اضافہ ہوا ہے۔ یکے بعد دیگرے مجاز اتھارٹی کی منظوری حاصل کیے بغیر تیس تیس روپے کا اضافہ کرکے ہدف کو ساٹھ روپے تک پہنچا دیا جانا کہاں کا انصاف ہے؟ پٹرول کی قیمتوں کا ٹیکہ اس سے پہلی حکومتیں بھی لگاتی رہی ہیں مگر موجودہ حکومت ٹیکہ کی شکل یکے بعد دیگرے دوڈوزیں تو دے چکی ہے اور اب کچھ ہی دنوں بعد بوسٹر ڈوز کا انتظار ہے۔ جب کبھی بھی پٹرول کی قیمتوں میں کمی رونما ہوتی ہے مہنگائی کا گراف گرنے کے بجائے جوں کا توں رہتا ہے۔
حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اپنی جگہ لیکن یہاں پٹرول پمپوں کی ہٹ دھرمی ، بے ایمانی، دھونس دیکھیے کہ بعض پٹرول پمپوں کے میٹروں میں ٹمپرنگ کرکے صارفین کو پٹرول کی سپلائی میں مطلوبہ مقدار میں ڈنڈی مارنے کی روایت شروع ہی سے قائم ہے۔ افسوس ! موجودہ حکومت کے دور میں پٹرول کی قیمتوں نے بلند ترین جمپ لگا کر اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ان قیمتوں کی بلندترین پہلی جمپ نے یکدم زندگی کے عام استعمال کی اشیا میں تیزی سے بلند ترین اضافہ ہوا۔ریٹیل دکانداروں نے فخریہ نئے نرخنامہ کی فہرستیں اپنی دکانوں میں جلی حروف میں لکھوا کر آویزاں کر دی ہیں۔
ملک کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا جس کا فائدہ ملک کی تاریخ میں ذخیرہ اندوز کو پہنچا ہے، جس نے یہ اشیا پرانی قیمتوں پر اور وہ بھی سستے داموں خرید کر اپنے گوداموں میں محفوظ کی تھیں،بلکہ ان اشیا کی قیمت کی یکمشت ادائیگی کے بجائے بھی مختلف عرصہ کے وقفوں کے ساتھ اقساط میں کی جاتی ہے۔اسی طرح پٹرولیم کی مصنوعات کے بیوپاریوں کا حساب کتاب ہے ۔ یوں پٹرول پمپوں کے مالکان کی زبردست عیدی ہوتی ہے۔ ادھر سڑکو ں کا حال نہایت ہی خستہ ہے۔
صوبائی حکومتی سطح یا شہری حکومت کی جانب سے کراچی میں سستی اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کا بھی فقدان ہے۔ اس بگڑتی ہوئی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے عوام کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ مریض کی عیادت یا تجہیز و تکفین میں شرکت لازم ہے اور ہمارا دین بھی اس کو ترجیح دیتا ہے۔ مہنگائی قبرستان کی زمین کی قیمتوں میں اضافہ کا موجب بھی بنے گی۔ میت گاڑیاں ، ایمبولینس کی لاگت میں ہوشربا اضافہ یعنی اب یوں سمجھ لیجیے ،میت کے اخراجات بھی لاکھوں روپے تک جائیں گے۔
مسند اقتدار کے شہنشاہوں کے پروٹوکول میں استعمال ہونے والی کروڑوں روپے مالیت کی سپر لگژری گاڑیوں کے قافلوں کی سڑکوں پر روانی کا سدباب کیا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر عوام سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیںکہ ملک بھر میں اشرافیہ طبقہ کو مفت پٹرول ، بجلی اور ہوائی ٹکٹس کی فراہمی کے فری پیکیجز کو فی الفور بند کیا جائے ۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ IMF اور ورلڈ بینک کا لالی پاپ معصوم عوام کو دینے کے بجائے ملک میں فی کس آمدنی کا تناسب کم از کم ایک لاکھ روپے تک کیا جائے اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کی حکومت کی طرف سے اعلان شدہ ریلیف پیکیج کی حدود کہاں تک ہیں ۔ عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ کس سیاسی پارٹی کی حکومت ہے۔ ان کے لیے آرام و سکون ہی زندگی کی علامت ہے۔