چڑیا کی پسوڑی کوئل کی فریاد

نوجوان ٹک ٹاک ویڈیوز کے لیے نتھیا گلی، ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں کے جنگلات کو آگ لگا رہے ہیں


ٹک ٹاک ویڈیوز کےلیے ہرے بھرے جنگلات کو آگ لگانے کا عمل قابل مذمت ہے۔ (فوٹو: فائل)

آگ، ایک چنگاری سے شعلے تک، ہریالی سے راکھ تلک، جب جلے تو سب بھسم کردے، جب بھڑک اٹھے تو پل بھر میں لہلہاتے جنگلوں اور صدیوں کی محنت کو پل بھر میں غارت کردے۔ جس کے شعلے خس و خاشاک سے ہرے بھرے تک سب کو کوئلہ بنادیں۔ جو لمحوں میں چرند، پرند اور حشرات کو بے گھر کردے۔ جو آشیانوں کی تباہی اور گھرانوں کی ویرانی کا باعث بن جاتی ہے۔ صرف ایک چنگاری، دیا سلائی کا ایک چھوٹا سا ٹکرا جب سلگ اٹھے تو اسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے۔

''اگ لاواں مجبوری نوں'' یہ بول حالیہ دنوں پوری دنیا میں دھوم مچانے والے پاکستانی گانے پسوڑی کے ہیں۔ مگر اس گانے نے ملک کے پہاڑی علاقوں کے نوجوانوں میں ایک خطرناک رجحان کو پروان چڑھا دیا ہے۔ نوجوان ٹک ٹاکرز کا جب جی چاہتا ہے، جہاں چاہتا ہے، ہرے بھرے جنگلات کو شعلوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ گانے کے بول اور کیٹ واک کے ذریعے اپنے فالوورز کی توجہ سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹک ٹاکر ڈولی نے قیمتی جنگلات کو آگ لگائی اور کیٹ واک کرتے ہوئے ویڈیو بنا ڈالی۔ ایبٹ آباد کے نوجوانوں نے چار سو سال پرانے جنگل کو راکھ بنا ڈالا مگر انتظامیہ کو خبر تک نہیں ہوئی۔ مارگلہ کے صدیوں پرانے جنگلات کو بھسم کردیا گیا مگر شاید قانون نافذ کرنے والے ادارے اس موسم گرما میں ستو پی کر سو رہے ہیں۔ نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کے جنگلات تو دور کی بات اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں کو آگ لگا کر ماڈلنگ جاری ہے مگر انتظامیہ کو خبر نہیں ہے۔

[ytembed videoid="BgsaSQHMzIY"]


محکمہ جنگلات کو جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اجازت کیسے دی؟ اگر نہیں دی تو کہاں سورہے تھے؟ اگر آگ پھیل جاتی تو نقصان کا ذمے دار کون ہوتا؟ کیا متعلقہ افسران اور ٹک ٹاکرز کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ وہ جنگلات جو اس ملک کے میدانوں میں اناج کا وسیلہ ہیں، انہی درختوں کو ذاتی تسکین کےلیے جلایا جارہا ہے مگر ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: ٹک ٹاک کے لیے مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی، ملزمان کیخلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی

پوری دنیا اس وقت جہاں نئے جنگلات اُگانے اور پہلے سے موجود جنگلوں کے تحفظ و بقا کےلیے سر جوڑے بیٹھی ہے، جب دنیا بھر میں درجہ حرارت ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان جو کہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے مگر موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جس ملک کے 3.3 فیصد رقبے پر جنگلات تھے، اب محض 1.8 فیصد رقبے پر ہریالی رہ گئی ہے۔



ایک ایسے وقت میں جب چولستان میں خشک سالی ہے، سندھ کی نہروں سے دھول اٹھ رہی ہے، کراچی کے نلکے خالی ہوچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہریوں میں جنگلات کی اہمیت اجاگر کی جاتی ، مسلسل جنگلات جلانے کی ویڈیوز سامنے آنا یقیناً انتظامی غفلت، عوام میں آگاہی اور شعور کی کمی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان میں جنگلات جو کہ پہلے ہی کم ہیں اور جنگلات کے رقبے میں کمی ہی درجہ حرارت میں اضافے کی باعث بن رہی ہے، ایسی غفلت یقیناً آئندہ نسلوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

اقوام متحدہ اور ماحولیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق سطح سمندر سے 5 سے 8 ہزار فٹ بلند جنگلات 60 فیصد مون سون کا سبب بنتے ہیں اور 1760 ملی میٹر سالانہ بارش کو برسانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ درختوں کی وجہ سے اگر بارش معمول سے زیادہ ہوجائے تو یہ گھنے جنگلات بارش کے پانی کو 72 گھنٹے روکے رکھتے ہیں اور درخت بارش کے پانی کا بڑا حصہ اپنے تنوں میں جذب کرلیتے ہیں۔ ہر ملک کے کم از کم پچیس سے چالیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ مگر پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 1.8 فیصد ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی ہورہی ہے۔

ایک عام درخت سال میں تقریباً بارہ کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور چار افراد کے کنبے کےلیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایک ہیکٹر میں موجود درخت سالانہ چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک بالغ درخت سالانہ دو سے تین کیوبک میٹر لکڑی فراہم کرتا ہے۔ 4.6 ٹن آکسیجن مہیا اور 6.3 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ سالانہ جذب کرتا ہے، اور 55 کلوگرام نامیاتی مادے، جانوروں کےلیے چارہ اور جلانے کےلیے لکڑی مہیا کرتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے تکنیکی عمل کے ذریعے ہوا کو صاف کرتا ہے، جس کی قدر 102 ڈالر سالانہ ہے۔ ایک بالغ درخت 30,000 لیٹر پانی اپنی جڑوں کے ذریعے زمین میں جذب کرتا ہے اور ایک چھوٹے آبی ذخیرے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بارش کے پانی کو تیزی سے بہہ کر ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور مٹی کے کٹاؤ کو روکتا ہے۔

وطن عزیز میں آگ لگانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث نہ صرف صدیوں سے قائم جنگلات تباہی کے دہانے پر ہیں بلکہ ان جنگلات میں موجود چرند و پرند اور حشرات کے مساکن بھی برباد ہورہے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم یونین آف کنزرویشن (IUCN) کی ریڈ لسٹ کے مطابق پاکستان کی 12 جنگلی حیات کی نسلیں معدومی کا شکار ہیں، جبکہ 11 شدید خطرے میں ہیں اور اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو مزید 10 جانوروں کی نسلیں خطرے میں آسکتی ہیں۔ ان جنگلی حیات کی معدومی کی وجہ غیر قانونی شکار کو قرار دیا جارہا ہے مگر جس تیزی کے ساتھ ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی واقع ہورہی ہے، محض فالوورز کی خاطر صدیوں سے قائم جنگلات کو راکھ بنایا جارہا ہے، خدشہ ہے کہ ملک سے جنگلی حیات کی معدومی کے خدشات مزید گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ جنگلی حیات کی معدومی کے نقصانات کیا ہیں؟ جنگلی حیات کرۂ ارض کے ایکو سسٹم کےلیے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ قدرت کا وہ ذریعہ ہیں جو ماحول کی صفائی کا کام کرتے ہیں، جو بیماریوں کا راستہ روکنے اور ہوا کو صاف بنانے کا قدرتی خزانہ ہیں۔ اگر یہ نہیں ہوں گے تو کرۂ ارض پر حضرت انسان کا جینا بھی محال ہوجائے گا۔



خادم پاکستان اور محترمہ وزیر ماحولیات! یہ ٹک ٹاک پر مجبوریوں کو آگ نہیں لگائی جارہی بلکہ یہ ملک کے مستقبل کو آگ لگائی جارہی ہے۔ کئی کئی صدیوں کے بعد مکمل ہونے والے جنگلات کو آگ لگا کر ماحولیات کےلیے ایک بڑی پسوڑی کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاست بھی ماحول مخالف ان افراد کو پسوڑی ڈال سکے گی؟

جنگلات کا تحفظ جہاں ریاست کی ذمے داری ہے، وہیں بحیثیت شہری ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم اپنے وطن عزیز کی بقا کےلیے کردار ادا کریں۔ یہ کردار اجتماعی اور انفرادی طور پر بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ایسے عناصر جو جان بوجھ کر یا سہواً ایسا کریں تو ان کا راستہ روکیں۔ جنگل کی جانب اٹھتی ہر چنگاری کو بجھائیں، شعلوں کے آگے رکاوٹ بنیں۔ کیونکہ ایک درخت کی حفاظت کرکے آپ اس درخت کے اطراف میں درجہ حرارت میں تین سینٹی گریڈ کی کمی کرسکتے ہیں۔ بارش کی بوندوں کےلیے امید بن سکتے ہیں، سیلاب کی راہ میں بند باندھ سکتے ہیں۔ چڑیا کی چہچہاہٹ اور کوئل کی کوک کی وجہ بن سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر آپ آنے والی نسلوں کو محفوظ ملک دے سکتے ہیں، جہاں کل کے پاکستانی پاکیزہ فضا میں سانس لے سکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں