توپ کاپی میوزیم

توپ کاپی یعنی Cannon Gate جو اس وقت دنیا کی قدیم اوروسیع ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے اس کا رقبہ سات لاکھ مربع میٹرہے


Hameed Ahmed Sethi March 01, 2014
[email protected]

سچی بات یوں ہے کہ واپسی کے باوجود میں ابھی تک استنبول کے سحر سے پوری طرح نکل نہیں پایا ہوں۔ دس روز کے لیے وہاں رہ کر واپس آنا ہوا تو کوئی دس منٹ نہیں گزرتے کہ کسی بدخبری سے دل و نگاہ کو واسطہ نہ پڑتا ہو۔ خیر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا' اچھے دن بھی آ جائیں گے اور جلد یا بدیر ضرور آئیں گے۔ انسان ہو یا ملک ہر عروج کو زوال اور خدا مہربان اور چلن اچھا ہو تو زوال کو عروج کا حصول ناممکنات میں نہیں۔ اس مشیت ایزدی کا مشاہدہ مجھے توپ کاپی میوزیم استنبول میں گھومنے کے دوران بھی کرنے کا موقع بخوبی اور وافر ملا۔

توپ کاپی یعنی Cannon Gate جو اس وقت دنیا کی قدیم اوروسیع ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے اس کا رقبہ سات لاکھ مربع میٹر ہے اور ابتداء میں New Palace کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1479ء میں سلطان مہمت کے علاقہ فتح کرنے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہوا اور اس کی تکمیل میں چودہ سال کا عرصہ لگا جس کے بعد سلطنت عثمانیہ کا یہ فرمانروا اس میں منتقل ہوا۔ عثمانیہ دور میں 36 بادشاہ گزرے اور سلطنت عثمانیہ کے 624 سالہ دور حکومت کے قریب ترین صرف رومن ایمپائر کا دور گزرا۔ اس وقت کے عثمانیہ فرمانرواؤں کے قدموں تلے تین براعظم تھے۔ ان کے پاس وقت کا طاقتو ر ترین بحری بیڑہ تھا۔ توپ کاپی عمارت 400 سال تک سلاطین عثمانیہ کے رہائشی محل کے طور پر زیراستعمال رہی۔

ہر سال بیس لاکھ کے لگ بھگ سیاح توپ کاپی میوزیم دیکھنے دنیا بھر کے ممالک سے استنبول کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ پندرہویں صدی اور اس کے بعد مسلمانوں کے دور حکومت اور ان کے عروج ہی نہیں زوال کی تاریخ کا نظارہ کرتے ہیں جب کہ مسلمان سیاح عبرت پکڑتے ہوں گے کہ محلاتی سازشیں چھتیس بادشاہوں کے قتل پر منتج ہوئیں۔

یہ محل جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے حکم پر 1924ء میں میوزیم بنا دیا گیا، ایک کمال کی عمارت ہے جس میں بے شمار نادر اشیاء اور سلاطین عثمانیہ کے زیراستعمال ہر وہ چیز جس کا تصور بعض کے نزدیک ممکن اور اکثریت کے تصورات سے بعید ہو گا، موجود تھی۔ اگر ان کی صرف تفصیل ہی لکھ دی جائے تو کئی کھرب پتی بھی چکرا کر رہ جائیں کہ انھوں نے ایسے ایسے قیمتی اور محیرالعقول نوادرات کو اپنی سوچ سے بھی ماورا پایا ہے اور ان کی تصاویر جمع کی جائیں تو کئی البم بھر جائیں اور دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جائیں۔

چونکہ توپ کاپی محل (اب میوزیم) میں صدیوں تک علاوہ مال غنیمت سلاطین کی جمع کردہ اور تحفے کے طور پر ملی اشیاء نوادرات کا درجہ ہی نہیں رکھتیں ان میں موجود سونا اور بیش قیمت ہیرے جواہرات کی مارکیٹ ویلیو ہی لگائی جائے تو بھی شاید دنیا کے امیرترین اشخاص تک کانوں کو ہاتھ لگا کر قوت خرید نہ ہونے کے باعث دستبردار ہو جائیں۔

اس میوزیم کی شہرت، عظمت، نوعیت، وسعت اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے استنبول آنے والے سیاح سب سے پہلے اس کی متنوع غلام گردشوں، بادشاہی کمروں یا حجروں، چار Courtyards، حرم، بیرونی خزانہ، شاہی اصطبل، سروسز ونگ، مقدس تبرکات، شاہی کچن، شاہی اندرون خانہ غیرملکی سفیروں سے ملاقات کا کمرہ، سونے کا بنا جواہرات جڑا شاہی تخت، شاہی لائبریری، سلطان اور شاہی فیملی کی خوابگاہیں، سلطان کے تخلیے کا کمرہ، سلطان کی مسجد، نایاب پینٹنگز، فوارے، حرم کے خدمت گار خواجہ سراؤں کے کمرے، سیاہ فام ہجڑوں اور خدمت گار دوشیزاؤں کی رہائش گاہیں، مادر ملکہ کی خواب گاہ، حرم کا اسپتال، مادر ملکہ و سلطان کے حمام (باتھ روم)، سلطانی تخت گاہ، شہزادوں شہزادیوں اور ولی عہد کے کمرے، مقربین خاص کے کمرے، بادشاہی ہال کمرہ، سحر و افطار کے کمرے، طبیب اعلیٰ کا کمرہ، ختنہ گاہ، چینی، جاپانی، جرمن، آسٹرین، فرنچ، یورپین، روسی اور ترکی مٹی، سونے، چاندی، پیتل اور شیشے سے بنے بیش قیمت اور اعلیٰ ڈیزائینوں کے ظروف سلاطین کے لیے بنائے گئے پارچات، پگڑیاں اور ٹوپیاں، کینڈل اسٹینڈ اور جڑاؤ بکس اور خنجر۔ یہ ان بے شمار نوادرات و اشیاء میں سے چند ہیں جو بے حد خوبصورت نقش و نگار سے مزین محل میں موجود ہیں جنھیں دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

یہاں اس سونے اور ہیرے جواہرات سے جڑے توپ کاپی خنجر کا ذکر بھی ضروری ہے جو سلطان نے ایرانی حکمران نادر شاہ کو تحفے میں بھیجا لیکن اس کے قتل کے باعث واپس آ گیا لیکن اگلے شاہ ایران، مغل بادشاہ، زار روس کے بھیجے گئے ہیرے جواہرات سے سجے بیش قیمت ظروف، تلواریں اور خنجر یہاں موجود ہیں جو توپ کاپی میوزیم کی زینت او رسیاحوں کے لیے سامان حیرت ہیں۔

بغیر تحقیق و یقینی ثبوت توپ کاپی کے ایک حصے Holy Relics کے بارے میں ترک تحقیق ہی کو بنیاد بنانا مناسب ہو گا۔ میوزیم کے اس سیکشن میں حضورؐ کے نقش پا کا نمونہ دیکھ کر کئی سیاحوں کو گم سم عقیدت کی تصویر بنے وہاں کھڑے پایا۔ وہیں پر ریش مبارک کے کچھ بال بھی ایک شیشی میں ڈسپلے میں رکھے تھے جن کے بارے میں تحریر ہے کہ سولہویں صدی میں مصر کو فتح کرنے پر یہاں منتقل کیے گئے۔ ان کے علاوہ عثمانی سلاطین کو فخر تھا کہ ان کے محل میں اس عہد کا ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک کا مسودہ اور خانہ کعبہ کی چابیاں بھی ہیں۔ میوزیم کے اسی سیکشن میں کچھ تلواریں بھی ڈسپلے میں تھیں۔ ان پر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور خالد بن ولیدؓ کے نام تحریر تھے۔

یہیں پر حضرت داؤدؑ کی تلوار، حضرت موسیٰؑ کی چھڑی، حضرت یوسفؑ کی پگڑی اور حضرت ابراہیمؑ سے منسوب ٹوپی بھی رکھی تھی۔ یہ سب کچھ توپ کاپی میوزیم ڈسپلے میں دیکھا۔ یہ عمارت جسے اب میوزیم کہتے ہیں چار سو سال تک عثمانیہ سلاطین کی رہائش گاہ رہی۔ اس کی تزئین و آرائش مستقل ہوتی رہی۔ اس میں موجود نوادرات سلاطین جمع کرتے رہے تاآنکہ جنگ عظیم اول میں عثمانیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا اور مصطفیٰ کمال پاشا نے شکست خوردہ بکھرتے ہوئے ملک کو سنبھالا، غیرملکی حکمرانوں کو نکال باہر کیا اور ریپبلک آف ترکی کی بنیاد رکھی۔ وہ ملک کے پہلے صدر بنے اور 1934ء میں اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب پایا۔ موجودہ ترکی کئی جہتوں میں ایک قابل تقلید ملک ہے لیکن پاکستان کو اس کی سطح پر پہنچنے کے لیے ایک مصطفیٰ کمال جیسے مثالی، قابل اور پرعظم رہنما کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں