گرد و غبار
دراصل میں آندھی کو کئی ایک سمتوں سے جانتا ہوں۔ اگرچہ میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔
ISLAMABAD:
ہمارے ملک کے اکثر و بیشتر لوگ آندھی کو ایک لعنت سمجھتے ہیں اور اس کی شان میں بعض اوقات غیر شریفانہ اور نازیبا کلمات کے استعمال میں بھی کوئی قباحت نہیں دیکھتے۔ چاہے آپ چند لحظوں کے لیے میری شرافت کو شبہہ کی نظروں سے ہی کیوں نہ دیکھنے لگیں۔ میں ان لوگوں کے اس طرز عمل کے خلاف احتجاج کرتا ہوں اور علی الاعلان اس بات کا اظہار کرتا ہوں اور قاعدے کے مطابق (اس اظہار میں مسرت محسوس کرتا ہوں) کہ میں آندھی کا سب سے بڑا مداح اور اس کے طریق کار کا سب سے بڑا علمبردار ہوں۔
جس طرح موسم کی پیش گوئی کرنے والے، سیاسی یا اخلاقی مسلک کے تحت شہر کے باسیوں کے لیے ایک قسم کا موسم اور دیہات میں رہنے والوں کے لیے ایک بالکل مختلف قسم کے موسم کی پیش گوئی کر کے دنیا اور عقبہ دونوں میں سرخروئی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح میرا یہ ارادہ ہے کہ آندھی کی برکات کے سلسلے میں غیر مہذب دیہاتیوں کے لیے ایک علیحدہ مضمون لکھوں اور اہل فکر کے لیے ایک علیحدہ بحث چھیڑوں تا کہ آگے چل کر جب مجھے قوم کا لیڈر بننے کی ضرورت لاحق ہو تو میں زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پیروکار حاصل کر سکوں۔ چنانچہ آج میں آندھی کی برکات کے سلسلے میں صرف اہل نظر سے مخاطب ہوں کہ میری دانست میں یہ طبقہ زیادہ خطرناک ہے۔ اور پہلے اس طبقے کے غلط رجحانات کا سدباب ہونا ضروری ہے۔
بظاہر آندھی پچاس، ساٹھ یا ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہوئی اس ہوا کا نام ہے جو ایک غول بیابان کی طرح دھول میں اٹی، اپنے بال کھولے، سیٹیاں بجاتی ہوئی آتی ہے اور سوئی ہوئی زندگی کو جھنجھوڑ کر بیدار کرتی اور اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کے مناظر چھوڑتی آگے کو نکل جاتی ہے۔ لیکن آندھی کی برکتیں تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ اس کے سامنے اس کی یہ ننھی ننھی بدعنوانیاں گرد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ حیرت ہے کہ اہل فکر نے آج تک آندھی کو محض ایک غول بیابان کے روپ میں دیکھا اور اس کی ان برکات سے چشم پوشی کی جنھیں میں آج منظر عام پر لا کر ایک زبردست انسانی خدمت کرنے جا رہا ہوں۔
آندھی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ جہاں یہ آپ کے دیکھنے، سننے، بولنے اور سونگھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتی ہے اور یوں ان بہت سی شمعوں کو بجھا کر آپ کی حسیات پر ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا مسلط کر دیتی ہے وہاں یہ آپ کے سینے کی تاریکیوں میں ایک ننھی سی قندیل بھی روشن کرتی ہے۔ جب سارا عالم ہوا کے وحشی جھونکوں کی زد میں آ جاتا ہے اور تاریکی اس قدر گہری ہو جاتی ہے کہ بقول شخصے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ نیز جب آپ اپنے ماحول سے اس طور کٹ جاتے ہیں کہ آپ اور قریب ہی بیٹھے آپ کے مہمان کے درمیان گویا میلوں چوڑی خلیج حائل ہو جاتی ہے۔ تو آپ یکایک کچھوے کی تقلید میں اپنے اندر سمٹ جانے میں ہی عافیت دیکھتے ہیں اور ماحول سے اپنے تمام رشتے منقطع کر کے اپنی خودی کے چھوٹے سے مندر میں احساس و شعور کی ایک ننھی سی شمع روشن کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی آندھی کا سب سے بڑا کمال ہے کہ یہ آپ کو بیرونی مظاہرے سے ہٹا کر آپ کی توجہ کو دل کی شمع پر مبذول کراتی ہے اور آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار ہونے میں مدد دیتی ہے۔
آندھی دراصل ایک Challenge ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آپ اپنی تمام تر ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔
قارئین کرام! بظاہر میرا موضوع آج ملکی حالات نہیں، سیاست بھی نہیں، حتیٰ کہ ملک میں جاری بدترین دہشت گردی بھی نہیں ہے۔ لیکن ایک ذرا غور کرنے پر آپ کو محسوس ہوگا کہ میں ایک ایسی طاقت کی بات کر رہا ہوں، میرا موضوع ایک ایسی قوت کے بارے میں ہے جس کی رفتار میں بڑی سرعت ہے جس کے انداز میں عجب استغنا ہے جو جب چلتی ہے تو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔
دراصل میں آندھی کو کئی ایک سمتوں سے جانتا ہوں۔ اگرچہ میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ نہ ہی میں اس کے پڑوس یا محلے میں رہتا ہوں۔ لیکن میں نے اسے دیکھا ہے۔ بڑی شان سے چلتے ہوئے، بڑی آن سے آتے ہوئے یہ آندھی ہر زمین پر رہتی ہے، ہر موسم میں چلتی ہے۔ بس ایک ذرا افسوس ہے کہ بڑی مدت سے یہ پاکستان سے کسی بات پر روٹھ گئی ہے اور ادھر کا رخ کر کے نہیں دیتی۔ لاکھ اس کے چلنے کے موسم آ جائیں، لاکھ اس کے آنے کے زمانے آ جائیں یہ آ کر نہیں دیتی۔ شدید بھوک کے عالم میں نڈھال کمسن، معصوم بچوں کو جب ایک ماں سونے کا مشورہ دیتی ہے اس وقت بھی نہیں۔ ایک مزدور اپنی بیٹی کو رخصت کرتے سمے جہیز میں بہت سے آنسو دیتا ہے تب بھی نہیں اور حیرت ہے کہ جب کوئی درندہ پانچ سالہ ایک بچی کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا ہے اس پل بھی نہیں۔ یہ آندھی ہم سے ناراض ہے۔ ہم کہ بظاہر ایک قوم کہلاتے ہیں 18 کروڑ لوگوں کی تعداد پر مشتمل ایک گروہ جو صرف چل پڑیں تو زلزلہ آ جائے جو نکل پڑیں تو کاتب تقدیر بھی ضرور پوچھے گا۔
''بتا تیری رضا کیا ہے''