صنعتی انقلاب گرانٹ ڈیوڈ امام غزالی
امام غزالی اپنی تعلیمات میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں، جس پر غور کیا جائے تو ایک جانب ایڈورٹائزنگ انڈسٹریز کی عمارت۔۔۔
ABBOTABAD:
گزشتہ کالم ''صنعتی انقلاب پر گرانٹ ڈیوڈ کی تنقید'' پر راقم کو بہت اچھا ردعمل (فیڈ بیک) ملا، اکثر نے تسلیم کیا کہ واقعی ہمارے معاشرے میں بغیر ضرورت کے اشیا خریدنا ایک طرح کا کلچر بن گیا ہے جس سے ماہانہ اخراجات میں بھی بلاوجہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک قاری کی تنقید بھی تھی کہ محض ایک گرانٹ ڈیوڈ کی تنقید پر اس طرح کالم لکھنا درست نہیں۔
عرض ہے کہ یہ ایک گرانٹ ڈیوڈ کی تنقید کی بات نہیں، اس سلسلے میں اور بھی بہت سی تحقیقات اور حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں تاہم ایک کالم عموماً ایک ہزار سے 15 سو الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ظاہر ہے کہ تفصیلی بات نہیں ہو سکتی، البتہ اہم مسائل پر ضرور روشنی ڈالی جا سکتی ہے مثلاً یہاں Stafford University کی طالبات کی جانب سے امریکا میں کی گئی ایک اور ریسرچ کا ذکر کروں کہ ان طالبات نے ایسے میگزین اور ان کی خواتین ریڈر پر تحقیق کی جو خواتین کے لیے ہی مخصوص تھے۔ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ان میگزین میں مختلف ماڈلز کی تصاویر سے متاثر ہونے والی 70 فیصد ریڈرز خواتین اپنی جسمانی حالت کو برا سمجھنے لگیں جب کہ ان میں سے 54 فیصد نے اپنے آپ کو ان ماڈلز جیسا بنانے کے لیے جم جانا شروع کر دیا اور بہت سی خواتین نے دبلا ہونے کے لیے کم کھانے، بھوکا رہنے جیسے دیگر غیر صحت مندانہ طریقوں کو اپنانا شروع کر دیا۔
مذکورہ بالا تحقیق کے نتائج سے گرانٹ ڈیوڈ کی بات درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ (1) صنعتی انقلاب سے پہلے خواتین سے متعلق ایسے میگزین کی اشاعت نہیں ہوتی تھی چنانچہ خواتین ان کی ریڈرز نہیں تھیں۔ (2) صنعتی انقلاب کے بعد شایع ہونے والے میگزین خواتین کی دسترس میں پہنچے جن میں خواتین کو ان کی نسوانی زیب و آرائش سے متعلق اشیا کی جانب متوجہ کرایا گیا اور خواتین ماڈلز کے ذریعے ایک مخصوص جسامت کی ضرورت بھی باور کرائی گئی، اس طرح 54 فیصد خواتین نے جم جانا شروع کیا، جس میں ظاہر ہے کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جسمانی ایکسرسائز کے لیے جدید مشینری بھی موجود تھی جنھیں یہ خواتین اپنی ضرورت سمجھ بیٹھیں۔ گرانٹ ڈیوڈ کے تناظر میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ تحقیق کے مطابق 54 فیصد خواتین جنھوں نے جم جانا شروع کر دیا وہ درحقیقت جم کی صارف بن گئیں۔ بات تو بظاہر چھوٹی سی ہے مگر انتہائی اہم اور ہماری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں کہ میں نے تقویٰ کا ایک اور بھی معنی تلاش کیا ہے وہ یہ کہ زائد حلال چیزوں سے اجتناب کیا جائے، یہ معنی اس مشہور حدیث سے ماخوذ ہیں جس میں حضورؐ سے مروی ہے کہ متقیوں کو متقی اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اسے بھی ترک کردیا جس میں کوئی حرج نہیں، اس ڈر سے کہ اس میں کوئی حرج واقع نہ ہو جائے۔
امام غزالی کی اس ضمن میں بے شمار تعلیمات واضح طور پر عصر حاضر کے مسائل پر ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ امام غزالیؒ (بحوالہ مراقبہ کی حقیقت ۔ص: 143) لکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی تو اسی طرح کرتا ہے کہ جتنی مدت جاڑے کی ہوتی ہے اتنے ہی دنوں کا سامان سردی سے بچنے کے لیے جمع کرتا ہے اور ان میں سے کسی چیز پر بھی اﷲ تعالیٰ کے کرم پر تکیہ نہیں کرتا، حالانکہ اﷲ تعالیٰ ان سب امور پر قادر ہے لہٰذا موت سے پہلے زندگی کو غنیمت جان اور جب تک تو آخرت میں رہے اس کی اسی قدر تیاری کر۔
اب اگر امام غزالیؒ کی تعلیمات پر غور کیا جائے اور معاشرے میں اس پر عمل کیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس معاشرے کی خواتین اپنی جسامت کو ماڈلز کی طرح بنانا اپنا اہم ترین مسئلہ سمجھ کر کسی جم کی صارفین بن جائیں یا کسی ریاست کے عوام گرانٹ ڈیوڈ کے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق محض تفریحی انڈسٹریز کے لیے سالانہ 480 بلین ڈالر خرچ کر ڈالیں کیونکہ جس معاشرے کے لوگ موت سے پہلے کی زندگی کو غنیمت جان لیں گے وہ نہ تو ''امریکن آئیڈیل'' میں 40 ملین کی تعداد میں ووٹ دیں گے نہ ہی تھیٹر کے 565 ملین ڈالر کے ٹکٹ خریدیں گے۔
امام غزالی اپنی تعلیمات میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں، جس پر غور کیا جائے تو ایک جانب ایڈورٹائزنگ انڈسٹریز کی عمارت ہی زمین بوس ہو جاتی ہے تو دوسری جانب معاشرے سے بے چینی، حسد، ناجائز دولت کے حصول وغیرہ جیسے مسائل کا حل بھی خود بخود نکلتا ہے۔ امام غزالی حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے بقدر مناسب پڑوسی کو بھی دو اور اگر نہ دے سکو تو گھر میں چپکے سے لے جاؤ تا کہ اس شے کو دیکھ کر پڑوسی کو حرص نہ ہو، اس کے بعد مناسب ہے کہ تمہارا بچہ بھی پھل لے کر باہر نہ نکلے کیونکہ ہمسائے کے بچوں کو حرص ہو گی تو اس کو رنج ہو گا، اسی طرح ہنڈیا چڑھے تو ایک چمچہ پڑوسی کو بھی پہنچاؤ۔
مذکورہ تعلیمات کے تحت عام روز مرہ کے کھانے پینے کی شے بھی چھپا کر گھر لے جانے کی بات کی گئی ہے اور گھر میں پکنے والی ہنڈیا کی بو سے پڑوسی کو متاثر ہونے کے ڈر سے کچھ کھانا فراہم کرنے کی بھی بات کی گئی ہے کیونکہ اس طرح دیگر آس پاس کے لوگوں کو حرص بھی ہو سکتی ہے اور اگر ان کی دسترس سے یہ اشیا باہر ہوں تو انھیں اس کا رنج ملال بھی ہو سکتا ہے اور مبادا وہ اس کے حصول کے لیے تمنا کریں اور اس کے حصول کے لیے ناجائز طریقے کی طرف بھی مجبور ہوں۔
اب آئیے دوسری طرف کہ جیسا خود مغربی محققین نے تسلیم کیا کہ صنعتی انقلاب کے بعد سرپلس اشیا کی کھپت (فروخت) کے لیے صارفین کی مارکیٹ تیار کی گئی اور مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹریز کی حکمت عملیوں سے لوگوں کو صارف بننے پر مجبور کیا گیا یوں یہاں تک تو بات بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے کے جن لوگوں کے پاس دولت ہو وہ سب کچھ خرید سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت کبھی بھی وہ تمام اشیا خرید کر اپنا معیار زندگی نہیں بڑھا سکتی جو مختلف ذرایع ابلاغ سے تشہیر کے ذریعے ان تک پہنچتی ہے، لہٰذا اندازہ کیجیے کہ جب پھل کے چھلکے کسی پڑوسی کو حرص اور رنج و ملال وغیرہ میں مبتلا کر سکتے ہیں تو صبح و شام حسین و جمیل ماڈلز، عالیشان بنگلے، طرز رہائش، پرتعیش معیار زندگی کے نظارے اور چٹخارے دار پکوان اور مشروبات پینے کے نظارے ہمارے معاشرے کے ان افراد کو کس قدر حرص، رنج و ملال میں مبتلا کرتے ہوں گے جن کی ہر صبح کا آغاز رات کے کھانے کے بندوبست کی فکر سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ایسی صبح کے آغاز کے باوجود قناعت پسند، شاکر اور صابر رہتے ہیں اور کتنے شارٹ کٹ، اسٹریٹ کرائم وغیرہ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ آج سے کوئی 15 سال پہلے سری لنکا کی حکومت نے اپنے سرکاری ٹی وی چینلز پر باربی ڈول کے اشتہارات پر پابندی عاید کر دی تھی کہ اس کی خریداری عام سری لنکن افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہم نے کیا کچھ کیا؟ آئیے غور کریں۔