کیا پیپلزپارٹی بلاول کے دورئہ پنجاب سے فعال ہوسکے گی

پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت کا بلاول بھٹو کے دورۂ پنجاب کے اغراض ومقاصد کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال


عظیم نذیر February 27, 2014
کارکنوں کی اعلیٰ قیادت سے براہ راست رابطہ نہیں، ان کے گلے شکوے کیسے دور ہوں گے؟ آئندہ کا لائحہ عمل تیار ہوگا ۔ فوٹو : شہباز ملک

الیکشن میں پیپلزپارٹی کی پنجاب حالیہ شکست بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے کہ کیا پیپلزپارٹی پنچاب میں کمزور پڑ چکی ہے؟

کیا اپنی لیڈر شپ سے ناراض کارکن دوبارہ پیپلزپارٹی کو فعال اور متحرک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ کیا اپنی اعلیٰ قیادت سے کارکنوں کا براہ راست رابطہ ان کی اشک شوئی کر سکے گا؟ اور کیا کارکنوں کے گلے شکوے سن کر ان کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکے گا؟ شاید یہی صورت حال دیکھ کر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنچاب کا اہم دورہ ترتیب دیا ہے۔ وہ مارچ میں لاہور اور ملتان میں دو ہفتے قیام کریں گے۔

بلاول بھٹو کے دورۂ پنجاب کے مقاصد جاننے' دورہ کے شیڈول اور انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں پیپلزپارٹی پنجاب نے بلاول بھٹو کے دورہ پنجاب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت نے ایکسپریس فورم میں بتایا کہ بلاول بھٹو کے دورے کا بنیادی مقصد کارکنوں سے براہ راستہ رکھنا' ان کے گلے شکوے سننا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کرنا ہو گا۔ ایکسپریس فورم میں شریک ہونے والوں میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو' سابق سینئر وزیر راجہ ریاض' سابق وزیر خزانہ پنجاب تنویر اشرف کائرہ' علماء و مشائخ ونگ پنجاب کے صدر علامہ محمد یوسف اعوان' پیپلزپارٹی شعبہ خواتین لاہور کی صدر فائزہ ملک اور مشیر بلاول بھٹو زرداری چودھری فواد شامل تھے۔



پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی وفاق کی جماعت ہے اس کی مضبوط جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین سینٹ پیپلزپارٹی کے ہیں، آزاد کشمیر اور گلگت میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں ہیں۔ اس کے باوجود کہ حالیہ الیکشن انجیئرڈ تھا اور پیپلزپارٹی کو منصوبے کے تحت ہرایا گیا۔ پنجاب میں ایسے لیڈر بھی الیکشن ہار گئے جن کے ہارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور نواز لیگ کو بعید از قیاس ووٹ ملے ان کی فی سیٹ ووٹوں کی تعداد اوسطاً ایک لاکھ تک تھی۔ پیپلزپارٹی نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کیا کیونکہ تحریک انصاف پہلے ہی الیکشن کے نتائج پر احتجاج کررہی تھی اگر پیپلزپارٹی بھی تحریک انصاف کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوجاتی تو ن لیگ کی حکومت نہ رہتی اور یہ خطرہ موجود تھا کہ پھر غیر جمہوری قوتوں کا ملک پر تسلط قائم ہوجاتا اور جمہوریت ڈی ریل ہوجاتی۔



پیپلزپارٹی نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرکے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچالیا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج بھی شفاف الیکشن کرائے جائیں تو پیپلزپارٹی ہی ملک کی اکثریتی پارٹی ہوگی۔ آپ ضمنی الیکشن دیکھ لیں رحیم یار خان، بہاولپور، ڈی جی خان اور اوکاڑہ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 1997ء میں بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا اور اسے قومی اسمبلی میںصرف 18 سیٹیں دی گئی تھیں اور کسی صوبے میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بنی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر نواز لیگ کو بھاری مینڈیٹ دیا گیا تھا جبکہ پیپلزپارٹی جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی سمجھا جاتا ہے وہ ہر جگہ سے آؤٹ کردی گئی۔ 2002ء میں ماحول غیر جانبدارانہ تھا۔ پیپلزپارٹی اکثریت لے کر جیتی لیکن اس کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے اس وقت کے ڈی جی رینجرز کے ذریعے پیپلزپارٹی کے 18 ارکان توڑ کر فارورڈ بلاک بنایا گیا اور پیپلزپارٹی کو چھوڑنے والوں کو اہم وزارتوں سے نواز دیا گیا اور ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن گئے۔

2008ء میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی مایوسی کا شکار تھی۔ پارٹی میں بددلی اور ہیجان کی کیفیت تھی۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں حد درجے کا اشتعال تھا جو ملک کو اندھیروں میں دھکیل سکتا تھا لیکن اس وقت پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تدبر اور حوصلے سے کام لیا اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر مشتعل سندھی نوجوانوں کو پاکستان سے محبت کا درس دیا ایک تاریخی حقیقت رہے گی۔ پھر 2013ء کا الیکشن آگیا جب لوڈشیڈنگ سے عوام تنگ تھے میڈیا نے بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف غلط پروپیگنڈہ کیا جسے ن لیگ نے استعمال کیا اور حکومت سے ناراض ووٹروں نے ن لیگ کے وعدوں پر اعتبار کرکے اسے ووٹ دیئے کیوں کہ اگر کسی وجہ سے عوام ناراض ہوں تو اس کا خمیازہ اہل اقتدار کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

آج لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ انہوں نے لوڈشیڈنگ سے ناراض ہوکر جن لوگوں کو ووٹ دیئے ان کے دور میں بھی لوڈشیڈنگ اسی طرح جاری ہے بلکہ اب تو صنعتوں کو بھی گیس نہیں مل رہی۔ گھروں کے چولہے بجھ گئے۔ بچے ناشتے کے بغیر سکول جارہے ہیں، عورتیں اور بچے توے اٹھا کر مظاہرے کررہے ہیں۔ منظور وٹو نے بلاول بھٹو کے دورہ پنجاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری کراچی میںبلاول بھٹو سے میٹنگ ہوئی اور اس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ بلاول بھٹو پنجاب کا دورہ کرنے کیلئے بے چین ہیں۔ انہوں نے پنجاب کا دورہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی پنجاب اس دورے کے انتظام کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ اس دورے کو کامیاب بنانے کی بھر پور کوشش کررہی ہے اور کئی روز سے پیپلزپارٹی پنجاب ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگز جاری ہیں جس میں بلاول بھٹو کے دورے کے حوالے سے پالیسی میٹرز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔



ان میٹنگز میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ اس دورے کو کس طرح زیادہ سے زیادہ بامقصد اور مفید بنایا جاسکتا ہے۔ دورے کے دوران بلاول بھٹو کارکنوں، پارٹی عہدیداروں، ٹکٹ ہولڈرز، خواتین، وکلاء' یوتھ، اقلیتوں، علماء، تاجروں، کسانوں، ذیلی تنظیموں، دانشوروں اور صحافیوں سے ملاقاتیں کرینگے۔ پیپلزپارٹی پنجاب ان افراد اور تنظیموں سے رابطے کرکے ان ملاقاتوں کے انتظام کو حتمی شکل دے رہی ہے ہم ایسا پروگرام تشکیل دینگے کہ بلاول بھٹو ان افراد اور تنظیموں کے عہدیداروں سے براہ راست بات چیت کرسکیں ان کی سن سکیں اور وہ اپنا نقطہ نظر اور سیاسی فلسفہ پارٹی سے وابستہ افراد پر واضح کرسکیں۔ بلاول بھٹو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی کارکنوں سے ذاتی شناسائی ہو تمام عہدیداروں سے مکالمہ ہو اور وہ کارکنوں کی سوچ اور خیالات کو سمجھ کر اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کریں۔

منظور وٹو نے کہا کہ بلاول بھٹو آزاد سوچ رکھنے والے بہادر نوجوان ہیں وہ اپنے نانا اور والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ترقی پسند سوچ کے ساتھ عوام کی خدمت کرانا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے دورہ پنجاب کے دوران فی الحال کسی جلسے کا پروگرام نہیں تاہم وہ ملاقاتوں کے بعد کسی جلسے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کے دورے کی وجہ سے لاہور کے حکمران پریشان ہیں کیونکہ ناراض کارکنوں کے پارٹی کے دھارے میں شامل ہونے سے پارٹی ایک نئی طاقت سے ابھرے گی جہاں تک اس دورے کے اخراجات کا تعلق ہے ہر عہدیدار، ہر رکن اسمبلی اور ہر کارکن ان اخراجات میں حصہ ڈالنا چاہتا ہے لیکن مثبت بات کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز لیگ اور تحریک انصاف کی قیادت دہشتگردی کے معاملات میں کنفیوژن کا شکار ہے۔



صرف بلاول بھٹو ہی ہیں جو شفاف ذہن کے ساتھ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ عوام میں دہشت گردی کیخلاف شعور پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لبرل سوچ اور بھٹو کے فلسفے کے ساتھ بلاول بھٹو ایک ایسی پالیسی بنانا چاہتے ہیں جن سے محروم طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ وہ جس ہمت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں انہیں نوجوانوں کی قیادت کرنے سے روکنے کیلئے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے لیکن وہ نڈر نانا، بہادر ماں اور باہمت باپ کے بیٹے ہیں، وہ جھکنے یا ڈرنے والے نہیں۔ پنجاب کے لوگ بڑے شوق کے ساتھ ان کے دورے کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کا دورہ تاریخی اہمیت کا حامل اور پیپلزپارٹی کیلئے حیات نو کا پیغام دیگا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور پنجاب کے سابق وزیر خزانہ تنویر اشرف کائرہ نے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سامنے آچکی ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔

یوتھ قرضہ سکیم فیل ہوگئی، ترقیاتی کام روک دیئے گئے، دہشتگردی کے حوالے سے بھی حکومت کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں جبکہ بلاول بھٹو اس بات میں کلیئر ہیں کہ دہشتگردی ختم ہونی چاہیے اور اس کیلئے جو بھی پالیسی بنے گی ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ حکومت کا ساتھ دینگے۔ بلاول کے دورہ پنجاب کے نتیجے میں پیپلزپارٹی پنجاب کی نئی تنظیم سازی ہوسکتی ہے کیونکہ ورکرز سے براہ راست بات چیت اور ورکرز کے گلے شکووں سے پیپلزپارٹی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ بلاول بھٹو پنجاب میں زیادہ وقت دینا چاہتے ہیں۔ وہ یوتھ، سٹوڈنٹس فیڈریشن اور تمام ونگز کو فعال بنانے کیلئے نئی پالیسی ترتیب دینگے کہ تمام ونگز پارٹی صدر کے ساتھ کام کریں پیپلزپارٹی کو یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر فعال بنایا جائے گا اور اچھے لوگوں کو آگے لایا جائے گا۔

اس دورے کے نتیجے میں پارٹی ورکرز اور یوتھ میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگا۔ یوتھ بلاول کے گرد جمع ہوگی تو ان کی پروگریسو سوچ آگے بڑھے گی اور ملک میں حقیقی تبدیلی شروع ہوجائیگی اور یہ تبدیلی پیپلزپارٹی کے نوجوان لے کر آئیں گے کیونکہ پیپلزپارٹی کی یہ سوچ ہے کہ تبدیلی لیپ ٹاپ دینے سے نہیں آئے گی بلکہ جب تک نوجوان کے خیالات، سوچ اور فکر تبدیل نہیں کی جاتی کسی تبدیلی کا امکان نہیں، نوجوان جب ترقی پسند سوچ کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہوں گے تو ایک نئی پیپلزپارٹی جنم لے گی اور پھرتبدیلی کا عمل کوئی نہیں روک سکے گا۔

سابق سینئر وزیر راجہ ریاض نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاروں صوبوں کی جماعت ہے۔ حالیہ الیکشن انجیئرڈ تھے جس میں دھاندلی کرکے اور پیپلزپارٹی کے لاکھوں ووٹ چرا کر اسے سندھ تک محدود کرنے کی سازش کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے ملکی مفاد کیلئے الیکشن کے نتائج تسلیم کیے اور منتخب ہونے والی حکومت کو کھل کر کام کا موقع دیا اور احتجاج کا راستہ نہیں اپنایا۔ حکومت کو ایک سال بھر پور موقع دیا ہے چاہے پنجاب میں پیپلزپارٹی کوخاطر خواہ کامیابی نہیں ملی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں آج بھی بہت مضبوط ہے۔ پنجاب ذوالفقار علی بھٹو کے، بینظیر بھٹو اور بلاول بھٹو کے جیالوں کا ہے اور بلاول بھٹو ہی پنجاب کے اصل وارث ہیں۔ حالیہ الیکشن میں جو نتیجہ آیا اس سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں بے چینی اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

مایوس کارکنوں کو مورال بلند کرنے اور واپس لانے کیلئے بلاول بھٹو کا دورہ پنجاب انتہائی اہم ہے۔ کارکن بلاول بھٹو سے ملیں گے، بات کریں گے تو یقینا پارٹی میں ایک بڑا بریک ڈاؤن سامنے آئے گا۔ پارٹی دوبارہ کھڑی ہوجائے گی۔ بلاول بھٹو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرح کارکنوں سے قریبی رابطہ رکھیں گے۔ یوتھ کو فعال کریں گے کیونکہ یوتھ کے اصل لیڈر بلاول ہی ہیں۔ کوئی 60 سال کا شخص نہیں یوتھ طالبان کے ساتھ نہیں، معاشرہ طالبان اور اینٹی طالبان میں تقسیم ہوچکا ہے۔ طالبان مخالف افراد کی قیادت بلاول بھٹو کریں گے۔ بلاول بھٹو کے دورے کے اخراجات کیلئے چندا جمع کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجہ ریاض نے کہا کہ پارٹی میں چندا جمع کرنے میں کوئی برائی نہیں۔

پارٹی اجلاس میں چندے کے حوالے سے بات ہوئی کسی نے پیسے دینے سے انکار نہیں کیا سب نے یہی کہا کہ پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی علماء اور مشائخ ونگ پنجاب کے صدر علامہ یوسف اعوان نے ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس وقت کے ڈکٹیٹر بے بس ہوگئے یہ پارٹی غریبوں اور نوجوانوں کی ہے اسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیبلشمنٹ اگرچہ الیکشن کے نتائج چرالیتی ہے لیکن شہیدوں کا خون کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ پیپلزپارٹی کا ہر کارکن بلاول بھٹو سے ملنے کیلئے بے تاب ہے۔ کارکن عہدیداروں یا ایم این اے اور ایم پی اے سے ناراض ہوسکتے ہیں لیکن بلاول سے کوئی ناراض نہیں کیونکہ وہ بینظیر کی تصویر ہیں۔



وہ پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جو دہشتگردوں کو للکار رہے ہیں باقی سب صرف ٹائم پاس کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو پارٹی میں ایک نئی روح پھونکیں گے کیونکہ وہ اس وقت مہنگائی، بدامنی اور دہشت گردی کے شکار عوام کے وکیل بن چکے ہیں۔ ان کے دورہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کو نئے سرے سے منظم ہونے کا موقع ملے گا اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر پنجاب کی سب سے مضبوط پارٹی بن کر ابھرے گی۔ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو کارکنوں اور عوام سے پیار کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی شعبہ خواتین لاہور کی صدر فائزہ ملک نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلے دس ماہ میں ہی ثابت کردیا ہے کہ وہ حالات کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں دہشت گردی کے خلاف سٹینڈ لیا۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو اس بات سے غرض نہیں کہ اسمبلیوں میں ان کے ارکان کی تعداد کتنی ہے۔ پیپلزپارٹی اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ عوام گواہ ہیں کہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ نے دہشتگردوں، ملک دشمنوں اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ نئے ٹیکس نہیں لگائے، آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کیں جبکہ موجودہ حکومت صرف آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے کسی بھی موقع پر عوام کے مفادات کا سودا نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کا قبلہ ہی درست نہیں۔ عوام حکومتی پالیسیوں سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ کسی کو انہیں سڑکوں پر لانے کی ضرورت نہیں وہ خود سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں۔

پنجاب میں ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ بلاول کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ ہشتگردی کے خلاف پارٹی کا سٹینڈ لے کر آگے چل رہے ہیں ورکرز بلاول سے ناراض نہیں ان کا دورہ پنجاب پیپلزپارٹی اور پارٹی کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور ان کے دورے سے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پیپلزپارٹی ختم نہیں ہوئی اور یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ آنے والا وقت پیپلزپارٹی کا ہے۔ بلاول بھٹو کے مشیر فواد چودھری نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاروں صوبوں کی جماعت ہے۔ الیکشن کے حالیہ نتائج کے بعد پیپلزپارٹی کو پنجاب میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ن لیگ کو پنجاب میں ایک سال کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پیپلزپارٹی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ بلاول بھٹو کے دورہ پنجاب کا اصل مقصد پیپلزپاٹری پنجاب میں نئی روح پھونکنا ہے۔ یہ ان کا پنجاب کا انفرادی حیثیت میں پہلا دورہ ہوگا لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے پنجاب کے دورے کا اعلان کیا تو بلال شیخ کو مار دیا گیا، اب مارچ میں آنے کا اعلان کیا گیا تو بلاول ہاؤس کے گارڈز پر حملہ ہوا جس میں مارے جانے والوں کی اکثریت زرداری قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔



ایسا لگتا ہے کوئی قوت بلاول بھٹو کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پنجاب میں نہ آئیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو دہشتگردی کیخلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ سمجھتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ وہ پنجاب کے اپنے پہلے دورے میں صرف ورکرز، عہدیداروں اور سٹیک ہولڈرز کو سننے کیلئے آئیں گے۔ ان کے گلے شکوے سنیں گے اور ان گلے شکووں کو دور کرنے کیلئے راست اقدامات کریں گے کیونکہ پارٹی ورکرز کو متحرک کرنا اور گھروں سے نکالنا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے تاہم وہ کسی تنظیمی تبدیلی کیلئے نہیں آرہے۔ وہ ورکرز سے مل کر اور انہیں سن کر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پارٹی اس وقت پنجاب میں کہاں کھڑی ہے۔ لیکن اگر وہ کوئی تنظیمی تبدیلیاں کرنا چاہیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو کا دورہ پنجاب دو ہفتے پر محیط ہوگا جس میں وہ لاہور اور ملتان میں قیام پذیر ہوں گے۔ اس دوران پارٹی میٹنگز کے علاوہ وہ ضلعی تنظیموں، پارٹی ورکرز، پارٹی کے ذیلی ونگز، اقلیتی عہدیداروں، علماء مشائخ، دانشوروں، صحافیوں، پارٹی کے شہداء کے رشتہ داروں اور صنعتکاروں کے وفود سے براہ راست ملاقات کرکے ان کی باتیں سنیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلاول کی پنجاب آمد کے موقع پر سکیورٹی کی تمام ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔