عمران خان صاحب اپنی اصلاح کیجئے

موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی رخصت ہونے جارہی ہے


خان صاحب ماضی کی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگیں۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: پی ٹی آئی کی مختصر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس پارٹی نے 1996 میں سیاست کا آغاز کیا۔ پھر پرویز مشرف کے زیر سایہ ہونے والے الیکشن میں ایک سیٹ حاصل کی۔ 2011 میں اسے عروج حاصل ہونا شروع ہوا۔ 2013 میں ایک سیٹ سے 30 سیٹیں اور 2018 میں اتحادیوں کی مدد سے یہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا پارٹی عوامی خدمت کو نصب العین بنا کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کرتی۔ ترک ماڈل کو اپناتے ہوئے، مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کی خاطر، جن کی یہ آخری امید تھے، صرف اور صرف معیشت پر توجہ دی جاتی۔ اس سے نہ صرف عوام سکھ کا سانس لیتے بلکہ کل کو یہی عوام اس کی طاقت بن جاتے اور انہیں 10 لاکھ بندے اکھٹا کرنے کےلیے وزرا کو ٹارگٹ نہ دینا پڑتا۔

مگر صد افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ پارٹی اپنے مقصد کو بھول گئی اور یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اقتدار کا اصل ماخذ عوام نہیں بلکہ ...، بس یہیں سے پارٹی کا زوال شروع ہوا اور پارٹی کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا۔ حکومت میں ہونے کے باوجود پارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور ممبران قومی اسمبلی نے حکومت پر تنقید کی۔ کاش اس وقت پارٹی کے بڑے جاگ جاتے، ناقدین کو سنا جاتا، ان کے تحفظات کو دور کیا جاتا، اتحادیوں کے تحفظات کو کارکردگی سے دور کیا جاتا۔ لیکن اپنوں پر تو جہ ہی نہ دی گئی۔ جیسے مثال کے طور پر چوہدری سرور نے گورنر ہوتے ہوئے لندن میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کی مگر شاید کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ندیم افضل چن نے کابینہ کا حصہ ہوتے ہوئے حکومت پر تنقید کی، تو بجائے ان کے مشوروں پر عمل کیا جاتا، انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ نور عالم خان نے اصلاح کی کوشش کی تو بجائے ہمدردانہ غور کرنے کے، انہیں شوکاز نوٹس تھما دیا گیا۔ اور تو اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی برداشت جواب دے گئی تو انہیں چیمبر میں بلاکر ٹھنڈا کردیا گیا۔

اور رہی بات اتحادیوں کی، جن پر توجہ دینا ضروری تھی، بجائے حقیقی انداز میں ان کے تحفظات دور کرنے کے انہیں جگاڑ کے ذریعے ساتھ رکھا گیا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ پارٹی جو 2018 کے الیکشن میں تین صوبوں اور مرکز میں حکومت میں تھی، مقتدر حلقے جونہی نیوٹرل ہوئے (یادرکھیے صرف نیوٹرل ہوئے، مخالف نہیں) تو پھر اپنے، پرائے سب ہی ساتھ چھوڑنے لگے۔ وہ معزز ممبران اسمبلی جو خان صاحب کے دیدار کو ترستے رہے، وہ وزیراعظم پاکستان کی خواہش کے باوجود ان سے ملاقات سے انکاری ہوگئے۔ منت سماجت، دھمکیاں کچھ بھی نہ کام آیا اور جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

رہے اتحادی، ان کا تو گویا سیزن آگیا۔ کبھی اِس طرف تو کبھی اُس طرف اور بالآخر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو قربان کردیا گیا مگر مرکز پر گرفت مضبوط نہ ہوسکی۔ اگر یہ وزارت اعلیٰ بہت پہلے قربان کردی جاتی یا پھر اپنے ہی کسی قابل شخص کو عنایت کردی جاتی تو عین ممکن ہے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ لیکن اب کیا ہو، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

اور آج تین صوبوں پر راج کرنے والے پارٹی ''ق لیگ'' کے ساتھ مل کر ''ق لیگ'' بنتی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے پی ڈی ایم کی جماعتیں مقتدر حلقوں پر جس طرح کے حملے کررہی ہیں، اس سے انہیں اور کچھ حاصل ہو نہ ہو، البتہ متوقع الیکشن میں اقتدار ضرور مل جائے گا۔ شاید یہی ان کا مقصود ہے۔

موجودہ حالات و واقعات کو یہ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی رخصت ہونے جارہی ہے اور جاتے جاتے پاک امریکا تعلقات کو بھی ساتھ لے کر جارہی ہے۔ خان صاحب نے اپنی ذاتی انا اور پسند ناپسند کے چکر میں ملک کا مستقبل داؤ پر لگادیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خان صاحب اپنے امریکا والے بیان پر یوٹرن لیں اور عوام کے سامنے وسیع تر ملکی مفاد میں پورا سچ بولیں۔ امریکا کے بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔

خان صاحب اور ان کے قریب ترین ساتھی، سیاسی بیان بازی چھوڑ کر، پارٹی کو ازسر نو منظم کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نظریاتی کارکنوں کو دوبارہ سے متحرک کریں۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ ماضی کی غلطیوں پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے نہ صرف قوم سے معافی مانگیں بلکہ اپنے محسنوں سے بھی معافی کے طلبگار ہوں تو عین ممکن ہے کہ پارٹی ایک بار پھر ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرسکے۔ بصورت دیگر داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں