سیاستدانوں کی ترجیح بلدیاتی نظام کیوں نہیں

بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ کرانا اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین لینا بھی آئین سے غداری ہے


Faisal Hussain April 05, 2022
ہمارے ملک میں خودمختار اور بااختیار بلدیاتی نظام نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کے ہر مہذب اور جمہوری ملک میں بلدیاتی اداروں کو جمہوری اداروں میں غیر معمولی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ عوام کی طاقت کا محور و مرکز بھی یہ ادارے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے ملکوں کی ترقی کی نہ صرف بنیاد ہوتے ہیں بلکہ ان اداروں کی کارکردگی پوری دنیا میں ان ملکوں کا ایسا پرکشش چہرہ بناتی ہے کہ ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک ان کے سحر میں گرفتار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سحر ہی ہم کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم ترقی اور ترقی یافتہ ممالک دونوں سے دور ہیں۔

ہمارے ملک کا صرف ایک المیہ ہے، باقی المیے صرف اس ایک المیہ کی وجہ سے ہیں۔ وہ یہ کہ اس ملک میں بااختیار اور خودمختار بلدیاتی نظام نہیں ہے۔ اور یہ نظام صرف اس لیے نہیں ہے کہ یہ نظام عام آدمی کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ نظام طاقتور سیاستدانوں سے اختیارات چھین کر گلی محلوں میں ایک عام آدمی کے سپرد کردیتا ہے اور اس ملک کا سیاستدان کبھی نہیں چاہتا کہ اس ملک میں ایک عام آدمی طاقتور ہو۔ کیونکہ عام انسان کے سیاسی طور پر طاقتور ہونے کا مطلب نئی سیاسی قیادت ہے۔ یہ بلدیاتی نظام موروثی سیاست اور خاندانی قیادت کی نفی کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں عام آدمی کا سب سے بڑا دشمن سیاستدان ہے، جس نے صرف اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے عام آدمی کو بے اختیار رکھا ہوا ہے۔

اس ملک میں 18ویں ترمیم کو سیاستدانوں کا بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس اٹھارہویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری تو دی مگر ضلعی خودمختاری نہیں دی، جس کے باعث اختیارات وزیراعلیٰ ہاؤس میں قید ہوگئے ہیں۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ آج کی دنیا میں شہری اور ضلعی خودمختاری دیے بغیر کبھی کسی قوم کو بنیادی انسانی حقوق سے بنیادی انسانی وسائل کی فراہمی، بنیادی مسائل کے حل سے لے کر میگا پروجیکٹ کا تسلسل کے ساتھ قیام ممکن ہی نہیں ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات وفاق سے بھی وزیراعلیٰ کے پاس چلے گئے اور اضلاع اور گلی محلوں سے وزیراعلیٰ ہاؤس منتقل ہوگئے۔ اس ترمیم نے صوبوں کے وزیراعلیٰ کو اس حد تک بااختیار بنادیا کہ ماضی میں کسی ڈکٹیٹر نے بھی اتنے اختیارات کا خواب میں نہیں سوچا ہوگا، جبکہ بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومتوں کی کنیز بنادیا گیا، جس طرح دل چاہے ان کو نچواؤ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملک میں جتنی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، خصوصاً تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ، ان کےلیے سب سے کم اہمیت بلدیاتی اداروں کی ہے۔ یہ بلدیاتی اداروں کو اثر انگیز ادارے بننے ہی نہیں دے رہے، جبکہ اگر ان جماعتوں کے منشور دیکھیں تو سب سے زیادہ ان جماعتوں نے اختیارات کی نچلی کی سطح پر متنقلی کو اپنی سیاسی جدوجہد کا محور قرار دیا ہوا ہے۔ مگر عمل اس سے قطعی مختلف ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل بااختیار بلدیاتی اداروں کی بہت باتیں کیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو معطل کردیا۔ کے پی کے میں اپنے اختتام کے قریب قریب الیکشن کرائے اور مسئلہ صرف الیکشن کرانے کا نہیں ہے، ان اداروں کے بااختیار ہونے کا بھی ہے۔ پیپلزپارٹی کی پالیسی دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی بلدیاتی اداروں سے باقاعدہ نفرت کرتی ہے۔ کم وبیش یہی صورتحال مسلم لیگ کی ہے۔ اس کی نظر میں بلدیاتی اداروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ ان جماعتوں کے بغیر اس ملک میں بلدیاتی نظام کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا۔ مضبوط بلدیاتی نظام کے بغیر جمہوریت کو مستحکم نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان کو مضبوط، باعزت اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے کا بھی واحد فارمولا بااختیار بلدیاتی حکومتیں ہیں۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ ان بااختیار بلدیاتی حکومتوں کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟ یہ ہمارے ملک کے سیاستدان ہیں جو جمہوریت کے نام کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں مگر جمہوریت کی نرسری قائم نہیں ہونے دیتے۔ پرویزمشرف کے دور میں ملک کی تاریخ کا مضبوط ترین بلدیاتی نظام قائم ہوا، جس کے ثمرات سے پوری قوم فیضیاب ہوئی اور خوب ہوئی۔ پرویز مشرف دور کے جس عمل کو آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کا بلدیاتی نظام ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اس قوم کو بااختیار بلدیاتی نظام چاہیے۔

گزشتہ کئی روز سے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر فساد جاری ہے۔ یہ فساد اس ملک میں بسنے والے عام انسانوں کےلیے نہیں بلکہ طاقتور افراد کے کلب کے عہدیداروں کا انتخاب ہے۔ جس سے عام انسان کا کوئی فائدہ نہیں ہونا، جیسا کہ جیمخانہ یا اشرافیہ کے کلبوں کے انتخابات ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی بھی جیتے، کوئی بھی ہارے عام آدمی کا تعلق نہیں ہوتا۔ اس طرح اس ملک میں جمہوریت بھی طاقتور اور اشرافیہ کا کلب بن چکی ہے۔ جس کے ثمرات نیچے آنے کے بجائے ان اشرافیہ تک محدود رہتے ہی۔ یہ جنگ آئین اور قانون کے نام پر لڑی جاری ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین تو مضبوط بلدیاتی نظام کی بات کرتا ہے، آئین بلدیاتی اداروں کی بات کرتا ہے۔ کم وبیش دو سال سے سندھ میں بلدیاتی ادارے جب تھے اس وقت بااختیار نہیں تھے۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے آنے کے ساتھ ہی بلدیاتی اداروں کو معطل کردیا۔ بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ خیبرپختونخوا میں اب انتخابات ہوئے مگر وہاں بھی طاقتور بلدیاتی نظام نہیں ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس ملک میں جب آئین بلدیاتی اداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو پھر اس ملک میں بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی اختیارات کےلیے سیاستدانوں میں تصادم کیوں نہیں ہوتا؟ بااختیار بلدیاتی نظام اور وقت پر بلدیاتی الیکشن نہ ہونے پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر آئین توڑنے کا الزام کیوں نہیں لگاتیں؟ سوائے کراچی سے پورے ملک میں بااختیار بلدیاتی نظام کےلیے آواز کیوں نہیں اٹھتی؟ آخر سیاستدان جس طریقے سے وفاقی وصوبائی حکومتوں کےلیے دست وگربیان ہوتے ہیں وہ بلدیاتی انتخابات پر اتنے لاتعلق کیوں نظر آتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے پر جمہوریت خطرے میں کیوں نہیں پڑتی؟ بلدیاتی ادارے توڑنے، بلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر نہ کرانے اور بلدیاتی اداروں کو بے اختیار رکھنے کو آئین سے غداری کیوں قرار نہیں دیا جاتا؟

سیاستدان بلدیاتی اداروں کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں نہیں بناتے؟ جب یہ ملک اور صوبے بغیر حکومت کے نہیں چل سکتے تو پھر بلدیاتی اداروں میں یہ پالیسی اختیارکیوں نہیں کی جاتی؟ ایک دن بھی منتخب بلدیاتی حکومت کے ان اداروں کو نہیں چھوڑا جاتا۔ جس طرح آئین میں وفاقی وصوبائی حکومت کے اختیارات کا تعین ہے، اس طرح بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا تعین آئین میں کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخر کیوں صوبوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں، جس طرح چاہیں، بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے کھلواڑ کرتے رہیں۔ بے اختیار بناتے رہیں مگر آپ سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

جب تک سیاستدان اس ملک میں جمہوریت اور آئین کو بااختیار اور منتخب بلدیاتی اداروں سے مشروط نہیں کریں گے اور جب تک بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ کرانے اور بلدیاتی اختیارات محدود کرنے کی سزا آئین سے غداری قرار نہیں دی جائے گی، جب تک اس ملک میں کبھی نہ جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے، نہ ہی یہ ملک کبھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں