ایک کلو ٹماٹر ایک بوتل خون

کیا زمانہ آ گیا ہے۔ہر طرف ارزانی ہے اور ہم مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بطریقِ۔۔۔


رضاالحق صدیقی February 24, 2014
پاکستان میں خودکشیوں کی نوبت تو آ ہی چکی ہے، پیٹ کی خاطر بچے بیچنے کے واقعے بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ ڈیزائن: اسد سلیم

کیا زمانہ آ گیا ہے۔ہر طرف ارزانی ہے اور ہم مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بطریقِ احسن پیدا کیا،اسے اشرف المخلوقات قرار دیا ۔تمام چرند پرند کو اس کا تابع فرمان بنایا۔لیکن کیا کیا جائے کہ یہ انسان ازل سے نا فرمان ہے۔ آج کے دور میں اسی حضرتِ انسان نے ایک دوسرے کا جینا دو بھر کر دیا ہے ، دوسری جانب مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ انسان کی قیمت کم سے کم تر ہوتی جاری ہے لہٰذا انسان نے جینے کے لئے خود کو بیچنا شروع کردیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں اس مہنگائی نے انسان کو ارزاں ترین جنس بنا دیا ہے جس کے آگے اس کے لہو کی قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ہندوستان میں مہنگائی کس حساب سے بڑھ رہی اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں لوگ خون دے کر مہنگے پیاز اور پٹرول خریدنے پر مجبور ہو گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست گجرات کے شہر سورت میں الٹی گنگا بہنے لگی ہے جہاں لوگ خون عطیہ کرنے کی بجائے خون دے کر مہنگے پیاز اور پٹرول خریدنے پہنچ گئے۔سورت میں بلڈڈونیشن کیمپ کی انتظامیہ نے لوگوں کو خون کی بوتل کے بدلے ایک کلو پیاز اور ایک لیٹر پیٹرول دینے کا اعلان کیا تو سینکڑوں افراد امڈ آئے،ابتدائی طور پر کیمپ میں سینکڑوں افراد کا خون لے کر انہیں پیاز اور پیٹرول دیا گیا۔

یہ تو ایک شہر سورت کا حساب ہے جہاںیہ واقعہ پیش آیا کیا یہ صورتحال برصغیر پاک و ہند میں ہر جانب نہیں ہے؟۔سڑکوں پر خون ا سپتالوں میں خون عطیہ کرنے والون کی بجائے خون بیچنے والوں کی قطاریں، کیا یہ بدلے ہوئے حالات اس بات کے غماز نہیں ہیں کہ انسان کتنا ارزاں ہو گیا ہے۔یا اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو مہنگائی مار گئی۔

ہندوستان کی بات تو چھوڑئیے ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک اخباری اطلاع کے مطابق مارکیٹ میں ٹماٹر کی قیمت میں 60روپے کے اضافے سے قیمت 160روپے فی کلو ہو گئی تھی۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق ہندوستان سے ٹماٹر کی درآمد پر پابندی کے باعث ٹماٹر کی قلت ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے۔جبکہ سابق وفاقی وزیرِ خزانہ سلیم ایچ مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مہنگائی16 فیصد تک پہنچ جائے گی جس کے باعث سرکلر ڈیٹ 900 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، حکومت سٹیٹ بینک سے یومیہ7.5ارب ڈالر قرضہ لے رہی ہے، حکومت جس رفتار سے سٹیٹ بینک سے قرضہ لے رہی ہے وہ ا سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کی شدید خلاف ورزی ہے۔یہ سب لفظوں کی جادوگری ہے جو عام انسان کی سمجھ میں آنے والی نہیںہیں لیکن ایک چیزہر انسان کی سمجھ میںآتی ہے اور وہ ہے مہنگائی۔

ہمیںیاد ہے ہمارے ایک صحافی دوست نے اس حکومت کے آنے کے کچھ عرصہ بعد جب پٹرول کی قیمت تیسری یا چوتھی بار بڑھی تھی تو اس نے کہا تھا یار صدیقی صاحب اب تو بس ہو گئی اب تو موٹر سائیکل پر بھی آفس آنامشکل ہو گیا ہے،کون سی چیز ایسی ہے جس کی قیمت نہیں بڑھی،پیٹرول اس حکومت کے آنے سے پہلے 99 روپے تک پہنچ گیا تھا اب تو حد ہی ہو گئی ہے پیٹرول کہاں پہنچ گیا ہے،گیس کی قیمت میں اضافہ الامان اور اوپر سےیہ اعلان کہ تین ماہ گیس نہیں ملے گی۔

اب ایک روز پہلے ہی اس کا پھر فون آ گیا کہ صدیقی گھر کا سودا سلف کب لائے تھے میں نے اس سے کہا آٹھ دس دن ہو گئے ہیں،اس نے کہا اب جانا اور پھر مجھے بتانا کہ پہلے جو سودا لائے تھے وہ کتنے کا تھا اور اب کتنے کا آیا،تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا۔

میں نے کہا یار تم صحافی بھی بس بات کا پتنگڑ بنانے کے ماہر ہوتے ہو،حکومت کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں،وہ بھی کیا کریں۔

ہمارے صحافی دوست کو غصہ آ گیا کہنے لگا کس نے کہا تھا حکومت بنانے کو،اپنا خرچہ بھی عوام پر ڈال دیا۔باہر کے دورے بند کر دیں نا ڈیڑھ ارب روزانہ کا بجٹ جو ان دوروں کے لئے رکھا ہوا ہے اسے مہنگائی کم کرنے پر خرچ کریں،ڈیڑھ ڈیڑھ سو افراد کا وفد لے جانے کی کیا ضرورت ہے چندضروری افراد کے ساتھ صرف ازحد ضروری دورے کر کے بہت سی بچت کی جا سکتی ہے۔وزیراعظم ہاؤس یا آفس کے آدھے ملازمین کم کرنے سے تو مہنگائی کم نہیں ہو سکتی نا۔

ہم خاموشی سے اس کی باتیں سن رہے تھے کہ اس کے فون کا بیلنس ختم ہو گیا اور ہم نے بھی دوبارہ اسے فون نہیں ملایا کہ کہیں وہ پھر کھری کھری نہ سنانی شروع کر دے،مہنگائی کو حکومت نے جس سطح پر پہنچا دیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی وہ صورتحال آنے والی ہے جو ہندوستان کی ریاست گجرات کے شہر سورت میں سامنے آئی۔

پاکستان میں خودکشیوں کی نوبت تو آ ہی چکی ہے، پیٹ کی خاطر بچے بیچنے کے واقعے بھی سامنے آنے لگے ہیں اب وہ صورتحال بھی دور نہیں جب ایک کلو ٹماٹر کے بدلے لوگ ایک بوتل خون دینے کے لئے لائن بنا کر کھڑے ہوں گے۔

حکمرانوں ہماری بات سن لو ، مان لو، قیمتیں اپنے اقتدار کی مدت کے لئے فریز کر دو، یہی اس ملک کے عوام کے لئے تمہاری کارکردگی ہو گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں