علم اور معلومات
لوگ صرف ’’اطلاع‘‘ میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں اور ’’خفیہ ایجنڈا‘‘ رکھنے والے لوگ اسی کند ذہنی کا فائدہ اٹھاتے ہیں
ٹیکنالوجی کے فروغ اور عروج نے اس صدیوں پرانے مسئلے کو ایک نئی شکل دے دی ہے اور ایک بار پھر یہ سوال صاحبان کی فکر و نظر کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ علم یعنی Knowledge اور معلومات یعنی Information کے درمیان موجود مطابقت اور فرق کو کس طرح سے دیکھا سمجھا اور سمجھایا جائے کہ ہماری نوجوان نسل اس فن میں بے حد مشکوک اور کنفیوز ہوتی جا رہی ہے کہ کسی انفارمیشن کا Knowledge کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کن مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ ٹی وی چینلز پر بے ہنگم موسیقی کے ساتھ دن میں کئی کئی بار Breaking News نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اس عمل کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور یوں اب ہمارا ذہن کسی چیز کو ایک ساتھ دیکھنے اور اس کے بارے میں سوچ کر کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے اس مخمصے میں مبتلا رہتا ہے کہ معلومات اور علم کے درمیان کی حد فاصل کو کیسے تلاش کیا جائے۔
میں اس مسئلے پر بہت دنوں سے لکھنا چاہ رہا تھا لیکن بوجوہ اس کا موقع نہ نکل سکا۔ اتفاق سے آج کراچی سے شایع ہونے والے ماہنامہ ''گلوبل سائنس'' کے تازہ شمارے کا اداریہ نظر سے گزرا تو اس مسئلے کی شدت کا احساس پھر سے اجاگر ہو گیا۔ اردو میں سائنسی موضوعات سے متعلق گنتی کے چند رسائل ہی ایسے ہیں جنھیں صحیح معنوں میں معیاری اور قابل ذکر کہا جا سکتا ہے اور میرے نزدیک یہ جریدہ گلوبل سائنس اس مختصر سے قافلے کے قافلہ سالار کی حیثیت رکھتا ہے۔ چند دنوں قبل کراچی کے ادبی میلے میں اس کے مدیر اعلیٰ علیم احمد سے ایک بار پھر ملنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ گفتگو کے دوران معلومات اور علم کے باہمی تعلق کے موضوع پر بھی سرسری سی بات ہوئی لیکن جس مہارت اور خوب صورتی سے انھوں نے اپنے اداریے میں اس پر قلم اٹھایا ہے اسے پڑھ کر بہت لطف آیا۔میں اپنے قارئین کو اس لطف میں شامل کرنے کے لیے اس کا ایک خلاصہ ان ہی کے لفظوں میں درج کرتا ہوں۔ اس کا عنوان ہے ''اطلاعات کی بم باری... علم کا قتل عام''
''ابتدا ہی میں اتنا جان لیجیے کہ اطلاع (انفارمیشن) اور علم (Knowledge) میں بہت گہرا تعلق ضرور ہے لیکن اطلاعات کو علم بننے کے لیے بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں گویا جس طرح ''آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک'' بالکل اسی طرح اطلاع کو بھی علم بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا اولین احساس ہمیں اس وقت ہوا جب ہم نے پہلی مرتبہ Information over load کے بارے میں پڑھا یعنی ایک ایسی کیفیت جب اطلاعات اتنی زیادہ ہو جائیں کہ ہمارا دماغ انھیں درست طور پر سنبھالنے، برتنے اور ان اطلاعات کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کر نے کے کسی فیصلے پر پہنچنے کے قابل نہ رہے...
''اطلاع'' کو عام زبان میں معلومات بھی کہا جاتا ہے آپ چاہیں تو اسے خبر بھی کہہ لیجیے یہ اپنی ذات میں ''کیا، کیوں، کس نے، اور کہاں'' جیسے نکات کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔ البتہ نفسیات اور اعصابیات (نیورالوجی) کے نقطۂ نگاہ سے یہ اطلاع سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے دماغ کی ''مختصر مدتی یادداشت'' یعنی شارٹ ٹرم میموری کا حصہ بنتی ہے اس طرح کی یادداشت محض چند سیکنڈ سے لے کر چند منٹوں تک برقرار رہتی ہے۔ اگلا مرحلہ اس اطلاع کے ''طویل مدتی یادداشت'' یعنی Long term memory میں منتقل ہونے کا ہے جس کے لیے کم از کم بلا روک ٹوک اور تبدیلی کے بغیر ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے اس کے بعد ہی ہمارا دماغ اس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ تجزیہ فوری بھی ہو سکتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد بھی، لاشعوری بھی ہو سکتا ہے اور شعوری بھی۔ اس دوران ہمارا دماغ اطلاع کی جزئیات کو کھنگالتا ہے اطلاع کے مختلف حصوں کو آپس میں مربوط کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت میں ہیں یا عدم مطابقت میں۔
...یادداشت میں ''سوچ سمجھ کر'' کیا جانے والا ''اضافہ'' ہی علم کہلاتا ہے جس کی نوعیت کیفیت اور کمیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔''
اس علمی وضاحت کے بعد اپنی بات کی مزید تشریح کے لیے علیم احمد نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے مثالیں دے کر ثابت کیا ہے کہ ٹی وی چینلز کسی طرح سنسنی خیزی میں بازی لے جانے کے لیے منفی اور غیر مصدقہ خبروں کو اس بری طرح سے بار بار اچھالتے اور دہراتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر ''گوئیلز کی روح بھی تڑپ اٹھتی ہو گی'' ذرائع ابلاغ کی اجتماعی نفسیات دیکھئے تو وہاں اچھی خبر کوئی خبر ہی نہیں (Good news is no news) کی سوچ حاوی نظر آتی ہے... معذرت کے ساتھ یہ انقلاب نہیں سیلاب ہے فکروں کو تباہ کرنے والا سیلاب... یہ اطلاعات کی فراوانی نہیں بم باری ہے علم کا قتل عام کرنے والی بم باری اور اس کا سب سے خطرناک اثر ہماری نئی نسل کے ذہنوں پر پڑ رہا ہے وہ کسی بھی اطلاع کا اچھا برا یا صحیح یا غلط تجزیہ تو اس وقت کر پائے گی کہ جب وہ اطلاع اس کی ''طویل مدتی یادداشت'' تک ''درست طور پر'' پہنچنے میں کامیاب ہو گی۔ یہ بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہیں سے ایک بھیانک فکری معذوری کا آغاز ہوتا ہے... یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہماری نئی نسل کو نہایت خاموشی سے مسلسل اور بتدریج ''غیر اعلانیہ ذہنی معذوروں'' میں تبدیل کر رہی ہے وہ کیسے! ذرا یہ بھی سمجھ لیجیے
... ہمارے بازوؤں کو بوجھ اٹھانے کی عادت نہ ہو تو وہ کمزور ہو جاتے ہیں... جنھیں بیٹھے رہنے کا شوق ہوتا ہے ان کی ٹانگیں (بڑھاپے سے بہت پہلے ہی) اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ چند قدم چلنے کے بعد ہی درد کرنے لگتی ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر دماغ میں بھی اطلاع کے علم بننے کا عمل مسلسل تعطل کا شکار رہے تو پھر اس کے لیے علم تک رسائی حاصل کرنا بھی دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسے ''اطلاع'' کو ''علم'' تک پہنچانے کی مشق ہی نہیں رہتی اور جب یہ مشق نہیں رہتی تو پھر کند ذہنی جنم لیتی ہے۔
لوگ صرف ''اطلاع'' میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں... بہتر یادداشت' اوسط ذہانت اور ''خفیہ ایجنڈا'' رکھنے والے لوگ اسی کند ذہنی کا فائدہ اٹھاتے ہیں''
آپ نے دیکھا کہ علم اور معلومات کے درمیان موجود فرق پر توجہ نہ دینے سے فرد سے لے کر معاشرے کی سطح تک کیسے کیسے گھمبیر، پیچیدہ اور خطرناک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آدھا ادھورا یا غلط علم بے علمی اور جہالت سے بھی زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے اور ایسی معلومات اور اطلاعات جنھیں بغیر سوچے سمجھے، پرکھے اور Test of time سے گزارے علم کا درجہ دے دیا جاتا ہے وہ گوناگوں قسم کے فساد کا باعث اور منبع بن جاتی ہیں۔
ایک غلط خبر کی تائید اگر ایک دوسری غلط خبر سے حاصل کی جائے تو بعض اوقات ایک بہت مضحک صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسے ایک صاحب نے اپنا کوئی شعر سنایا جس میں زبان وزن اور تلفظ تینوں کی غلطی تھی جب انھیں سمجھانے کی کوشش کی گئی تو وہ ایک نامعقول قسم کی بحث پر اتر آئے تنگ آ کر اعتراض کرنے والے نے کہا کہ کیا آپ اپنی بات کی تائید میں کسی ''استاد'' کی سند پیش کر سکتے ہیں۔ موصوف نے فوراً کہا ''جی ہاں'' اور ایک اور ایسا شعر سنایا جس میں اولذکر شعر میں موجود تمام فنی سقم موجود تھے اعتراض کنندہ نے پریشان ہو کر پوچھا ''یہ سند کن استاد کی ہے؟'' جواب ملا ''یہ بھی اپنا ہی ہے'' کسی غلط اور غیر مصدقہ اطلاع یا انفارمیشن کو علمی سند بنانے کا نتیجہ شیخ سعدی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بھی نکلتا ہے کہ
خشتِ اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی لگائے تو آسمان تک جانے پر بھی دیوار کی کجی ختم نہیں ہوتی سو اس بات کی شدید اور فوری ضرورت ہے کہ ہم معلومات اور علم کے درمیانی رشتے کو خود بھی سمجھیں اور اپنی نئی نسل میں بھی اس کا شعور پیدا کریں اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے متعلق لوگوں کو بھی اس بات کا احساس دلائیں کہ ان کی کسی غلط، غیر مصدقہ یا غیر ذمے دار انہ اطلاع سے کس کس طرح کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ یگانہ چنگیزی نے جو یہ کہا تھا کہ
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی، جس کے گمان میں آئی
تو یہ کوئی امر واقعہ نہیں بلکہ ایک شاعرانہ خیال تھا جس کی تحسین تو کی جا سکتی ہے لیکن اس پر یقین کرنے سے سوائے بے یقینی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔