و من تُرکی نمی دانم
کاش وہ تھوڑی زحمت اور کرتے اور ہمارے نام کے ساتھ ہماری کہانی کا نام بھی اردو میں لکھ دیتے۔۔۔
اسلام آباد میں ایک بزرگ ہیں مسعود اختر شیخ جو ادب کی سطح پر ترکی اور پاکستان کے درمیان سفارتی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سمجھ لیجیے کہ انھوں نے اپنے ذمے یہ لے رکھا ہے کہ پاکستان والوں کو ترکی شاعری سے متعارف کرائیں گے۔ ٹھیک ہے کہ یہ فریضہ وہ انجام دیتے ہیں اس رنگ کا کہ ترکی زبان میں ہونے والی شاعری کے ترجمے انگریزی میں کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے بہرحال انگریزی کو اپنا رکھا ہے اس زبان کے واسطے سے ترکی کی شاعری سے اور اس واسطے سے ترکی سے صحیح معنوں میں متعارف ہو سکیں گے۔ وقتاً فوقتاً ان کے ترکی شاعری کے ترجموں کا مجموعہ ہم تک پہنچتا تھا اور کالم کے ذریعہ اپنے قارئین کو بھی اس شاعری کے احوال سے مطلع کرتے تھے۔
مسعود شیخ کو کسی نہ کسی دن یہ خیال بھی آنا ہی تھا کہ میں نے اتنی ترکی شاعری بزبان انگریزی پاکستان والوں کو پلا دی ہے۔
کیا مضائقہ ہے کہ ترک لوگ بھی پاکستانی شاعری کے ذائقہ سے تھوڑا آشنا ہو جائیں۔ سو اب جو ہمیں ان کی طرف سے شاعری کا مجموعہ موصول ہوا ہے اس کا عنوان ہے 'ماڈرن پاکستان ادبیات'۔
اس مجموعہ کی وصول یابی کے ساتھ ہماری اپنی قلعی کھل گئی۔ بار بار الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور پھر کتاب بند کرتے ہوئے ٹھنڈا سانس بھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔
یہ مجموعہ ویسے تو خوب ہے اور صحیح معنوں میں پاکستان کی نمایندگی کرتا نظر آتا ہے۔ اردو، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی کے اس زمانے کے شاعروں میں سے انھوں نے اپنی پسند کے شاعروں کو چھانٹ کر نکالا ہے اور انھیں ترکی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ قدما میں سے بھی کم از کم پنجابی کی حد تک انھوں نے بعض شعرا کا انتخاب پیش کیا ہے۔ اس سے آگے اس انتخاب پر بات کرتے ہوئے ہمارے پر جلتے ہیں۔ وہ تو ترکی زبان میں ہیں۔ فہرست میں ایک نام پر خاص طور پر نشان لگایا گیا ہے اس اردو عبارت کے ساتھ 'میری نیک تمناؤں کے ساتھ ایک یاد گار کے طور پر محترم انتظار حسین کے لیے۔''
کاش وہ تھوڑی زحمت اور کرتے اور ہمارے نام کے ساتھ ہماری کہانی کا نام بھی اردو میں لکھ دیتے۔ سو ہم اب یادگار کے طور پر ہی اس مجموعہ کو اپنی کتابوں کے بیچ سجا کر رکھ سکتے ہیں۔ پڑھ تو نہیں سکتے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔
مگر پھر ہم نے اپنے آپ سے پوچھا کہ آخر تم کیوں ترکی نہیں جانتے۔ آخر اتنے ترک فاتحین مارا مار کرتے ہوئے اس خطۂ ارض میں پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ اور ان کے آگے پیچھے کتنے ترک زادے یہاں آن پہنچے تھے۔ پھر تو یہاں کے لوگوں کو ترکی زبان میں کچھ شدھ بدھ ہونی چاہیے تھی۔ مگر واقعہ یوں ہے کہ ترک سلاطین کے دربار کی زبان بھی فارسی ہی ہوتی تھی اور وہ شاعر جس کا نام خسرو تھا نسلاً تو ترک ہی تھا۔ مگر شاعری فارسی میں کرتا تھا۔ اصل میں قصہ یہ تھا کہ اسلامی دنیا دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ عربی منطقہ اور عجمی منطقہ۔ عجمی منطقہ کی لنگوا فرینکا فارسی تھی۔ سو ترک سلاطین کے درباروں میں بھی فارسی ہی کا طوطی بولتا تھا۔ ہاں بابر بادشاہ نے ضرور اپنی توزک ترکی میں لکھی تھی۔ لیکن اس کے بعد جتنے مغل یہاں آ کر ممتاز ہوئے انھوں نے اپنی نگارشات فارسی میں لکھیں۔ ہاں آخری مغل شہنشاہ کا طور یہ تھا کہ فرمان فارسی میں جاری کرتے تھے اور شاعری اردو میں کرتے تھے۔ سو فارسی کا شروع سے اتنا دور دورہ رہا کہ کسی یار عزیز نے ترکی میں زبان کھولی بھی تو یاروں نے معذرت کر لی کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ یار ترکی میں چہک رہا ہے مگر ہم ہیں کہ اس کی چہک مہک کو سمجھ نہیں پا رہے کہ ہم ترکی سے ناآشنا ہیں۔
سو یوں ہے کہ دیار ہند میں ترک قطار اندر قطار آئے۔ ترک آئے، ترک بچے آئے، شمشیر زن آئے، شاعر آئے، صوفیا آئے۔ مگر یہاں پہنچ کر ترکی تمام شد۔ انھوں نے جتنی تیزی ترکی دکھائی فارسی میں دکھائی۔
ارے تحریک خلافت کے زمانے ہی میں ہم ترکی سے کچھ تعاون حاصل کر لیتے۔ کم از کم اب وہ زمانہ تھا کہ مصطفیٰ کمال نے تو عربی فارسی دونوں کو طاق میں بٹھا دیا تھا اور صرف ترکی پر زور دیا تھا۔ مگر ہم اس دور میں بھی ترکی نمی دانم کا وظیفہ پڑھتے رہے۔
مگر اب زمانہ اور ہے۔ فارسی ہمارے یہاں آٹے میں نمک کی نسبت سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اب ہمارے بیچ انگریزی کو وہ مرتبہ حاصل ہے جو کبھی فارسی کو حاصل تھا۔ یہ وقت وقت کی بات ہے۔ اس زمانے میں عجم کا طوطی بولتا تھا۔ فارسی کی دھوم سمر قند و بخارا سے کلکتہ تک تھی۔ بیسویں صدی کے آتے آتے وہ زمانہ آیا کہ اقبال کو بصد افسوس کہنا پڑا کہ؎
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
اب زمانے میں انگریزی کی گُڈی چڑھی ہوئی ہے۔ ارے اب تو ہم کیا پاکستان کیا ہندوستان برصغیر کی کسی زبان کو بھی زیادہ خاطر میں نہیں لا سکتے۔ خود ہمارا یہ حال ہے کہ احمد آباد میں بیٹھی ایک بی بی نے ہمارے افسانوں پر اپنی گجراتی زبان میں کچھ تحقیقی کام کیا۔ ہمیں اس بی بی نے ہر خط گجراتی میں لکھا اور ہم نے ہر خط کو الٹا پلٹا اور یہ کہہ کر رکھ دیا کہ زبان یار من گجری و من گجری نمی دانم۔ بس اس کا جو پیغام ہمارے نامور نقاد وارث علوی کے واسطے سے پہنچتا تھا اس کا جواب ہم اپنی اردو میں بذریعہ وارث علوی بھجوا دیتے تھے۔
مگر مغرب کے ادیبوں پر ہم رشک کرتے ہیں کہ اپنی زبان کے سوا کتنی زبانیں جانتے ہیں۔ مغرب کا لوہا مانتے ہوئے بھی ہم لے دے کر وہاں کی ایک ہی زبان سے آشنا چلے آتے ہیں۔ اس کے لیے بھی ہم لارڈ میکالے کے شرمندۂ احسان ہیں۔ ہاں سنتے رہے ہیں کہ فلاں فلاں کو فرانسیسی میں بھی درک ہے۔ ذاتی طور پر تو ہم اپنی دنیائے ادب میں صرف عسکری صاحب کو جانتے ہیں کہ انھوں نے فرانسیسی ادب کے عشق میں فرانسیسی زبان میں بھی اتنا درک حاصل کر لیا تھا کہ فرانسیسی زبان میں مقالے لکھے اور فرانسیسی رسالوں میں ان کی اشاعت ہوئی۔