والدین کے حقوق و احترام

’’اے بندو! تم میرا شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘


’’اے بندو! تم میرا شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ان کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔ جب کبھی اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و فرماں برداری کی طرف توجہ دلانا چاہی ہے اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرماں برداری کی تعلیم دی ہے۔ مفہوم: ''اے بندو! تم میرا (اﷲ کا) شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔'' (سورۃ لقمان)

یا د رکھیے! جس طرح سے اﷲ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں۔ انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں۔ ماں باپ کی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گی ہے۔ مفہوم: ''اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا، اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔

یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا: اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لائوں جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، (یہ) جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جوان سے کیا جاتا تھا۔والدین سے نافرمانی کرنے والو ں کے لیے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔'' (سورۃ الاحقاف)

اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر اس کے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔'' (مظہری)

ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص حسن سلوک اور صلۂ رحمی کا حکم اﷲ تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر دیا ہے۔ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے۔ بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور نشو و نما کے لیے اس کے بدن سے بچے کو غذا دی جاتی ہے۔ ہر وقت بچے کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا۔ ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کی تعلیم و تربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے۔ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم مائوں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔

ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس! کہ کئی مائیں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں، بہت ساری مائیں بچو ں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں، یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھر یلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا دیتی ہیں۔ جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی مائیں اﷲ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرتی ہیں، سورۃ النساء، مفہوم: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار۔ (مردوں کی) غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔''

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایات دی ہیں۔ اتنی ہدایات زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں۔ کیوں کہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقاء اﷲ تعالیٰ کی نظر میں

بہت اہم ہے۔ ایسی مائوں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ایسی مائوں کا اجر کم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ و برباد کرتی ہیں۔ کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں۔ جب وہ خود اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل میں گھِر کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔

حقیقت میں ہر بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہو جاتا ہے۔ مفہوم: ''کسی بھی بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو مل کر رہتا ہے۔'' (سورۃ الفاطر) مفہوم: ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بل کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا: اے میرے پروردگار ! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔'' (الاسراء)

ا ن آیات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و احترام کی بات کی ہے۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے۔ مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ، اسی لیے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔ کیوں کہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔

اﷲ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں: والدین کو ان کی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے۔ ان کے سامنے چلّا کر نہیں بولنا چاہیے۔ انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہم دردی کے انداز میں ان سے بات کرنی چاہیے۔ والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرماں برداری اور نرمی سے کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ ہونا چاہیے اور خلوص دل سے یہ سب کچھ ہونا چاہیے، محض دکھانے کے لیے روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں والدین کے لیے دعا کرنا چاہیے، اے اﷲ تعالی! میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم و کرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہیے، ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی اور اسکی تلقین فرمائی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی ہے کہ اگر کسی سے بُھول چُوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں جو بے پروائی کی وجہ سے نہیں بل کہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہو جائے تو اس پر اﷲ تعالیٰ ہمیں سزا نہیں دے گا۔ بہ شرطے کہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں، اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول کریمؐ سے پوچھا: وہ کون سا عمل ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت مقررہ پر عبادت کرنا۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ ﷺ

نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ (بخاری)

حضرت عبد اﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا: جی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لیے جہاد ہے۔ (بخاری)

اسلام اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کے متعلقین کی بھی عزت کرنا چاہیے، وہ والدین کے رشتے دار ہوں یا والدین کے دوست۔ حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کرو گے تو یہ بلا واسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہوگا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''فلاں شخص برباد ہو ۔ دوسری سیڑھی پر چڑھتے ہوئے پھر یہی الفاظ کہے اور تیسری سیڑھی پر جب قدم رکھا تو پھر یہی الفاظ کہے۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول ﷺ کون برباد ہو؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایسا آدمی جو رمضان کا مہینہ پا کر بھی اپنے گناہ معاف نہ کروا سکے، وہ آدمی برباد ہو جو میرا نام سن کر مجھ پر درود نہ بھیجے، وہ آدمی بھی برباد ہو اور جو بوڑھے والدین کو پا کر بھی اپنی مغفرت نہ کروا سکے اور جنت میں نہ جا سکے۔'' (مسلم)

اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمارے والدین کے متعلق حقیقی محبت پیدا کر دے اور ان دونوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں