انگریزی گلی میں اردو کی سج دھج سے آمد

آج تک ہم اردو کو رابطے کی زبان کہتے آئے ہیں مگر اردو اس خطے کی فطری زبان ہے


Muhammad Usman Jami January 15, 2022
اردو لوگوں کو آپس میں جوڑنے والی زبان ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: یہ وہ گلیاں ہیں جہاں اردو کا گزر ہو بھی تو سہمی سہمی سی گزرتی ہے، اور ان کے وسیع و عریض محلات کے پیچھے تو اس زبان کا چلن ہے ہی نہیں، ان میں انگریزی راج کرتی ہے اور ٹوٹی پھوٹی اردو اس کی ملازمت۔ لیکن آج کلفٹن کے نام سے موسوم اس علاقے میں ایک نیا منظر طلوع ہوا ہے۔ یہاں کی ایک دور تک پھیلی عمارت میں اردو نے بڑی سج دھج اور پوری شان سے قدم رکھا ہے، یوں کہ درودیوار اس کی دمک سے چمک اٹھے ہیں اور اس کی خوشبو سے فضا مہک اٹھی ہے۔

یہ ذکر ہے گرینچ یونیورسٹی میں ہونے والی اردو کانفرنس کا، جو بیتے سال کے جاتے لمحوں میں 30 دسمبر کو منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع تھا "ادب و زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت"۔ اس ایونٹ کے انعقاد پر یونیورسٹی کی وائس چانسلر سیما مغل مبارک باد اور داد کی مستحق ہیں، جنھوں نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ ان کے ساتھ اس جامعہ سے وابستہ ڈاکٹر اے کیو مغل، فہام الدین حقی، پروفیسر علی جیلانی اور سید محمد کاشف نے اردو کانفرنس کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس کی صدارت ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض سید محمد کاشف نے انجام دیے۔

کانفرنس کے دو حصے تھے، پہلا شاعری کے سحر اور نظم وغزل کے سرور میں ڈوبا تھا اور دوسرا عقل و خرد کی گفتگو لیے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت خوانی کے بعد مہمان شعرائے کرام کامی شاہ، سید علی بابا، ہدایت سائر، عمران شمشاد اور علی زبیر نے اپنا خوب صورت کلام پیش کیا، جب کہ یونیورسٹی کی طالبہ شبانہ ناز اور پروفیسر علی جیلانی نے بھی اپنی شاعری سماعتوں کی نذر کی۔ حاضرین، جن کی اکثریت جامعہ کے طلبا پر مشتمل تھی، شعرا کی دل پذیر شاعری سے بے حد محظوظ ہوئی اور کھل کر داد دی۔ اشعار سنتے ہوئے شرکا کی محویت اور ردعمل قابل دید اور حیران کُن تھا۔ عمران شمشاد کی طویل نظم کو بھرپور توجہ سے سنا گیا اور اسے خوب داد ملی۔ نہایت تیز رو ڈاکومینٹری کی طرح لمحوں میں منظر بدلتی یہ دلکش نظم بے شک ایسی ہی توجہ اور داد کی مستحق ہے۔ انگریزی میں زندگی کرتے نوجوان حاضرین کی اس پذیرائی سے یہ حقیقت ایک بار پھر سامنے آئی کہ شاعری کا جادو جگا کر اردو سے دور ہوجانے والی نسل کو اس روپہلی زبان کے عشق میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔

شعری سیشن کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں "اردو ادب اور زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت" کے حوالے سے احقر (محمد عثمان جامعی) نے اپنا مضمون پڑھ کر سنایا اور ڈاکٹر صابر علی نے اپنی معروضات پیش کیں۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے میں موجود ممالک میں بولی جانے والی زبانیں تہذیب و ثقافت کا حصہ ہوتی ہیں۔ 1862 میں ہندوستان میں 560 زبانیں بولی جارہی تھیں اور ان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو تھی۔ اس وقت ہندوستان کی آبادی پچیس کروڑ سے زائد تھی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا کہنا تھا کہ جب ہم کسی بھی خطے کی زبانوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایک فطری بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی ملک یا خطے میں جب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں وہ سب ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں اور اس خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں تمام زبانیں ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں جو اردو ہے۔ آج تک ہم اسے ایک رابطے کی زبان کہتے آئے ہیں مگر اردو اس خطے کی فطری زبان ہے۔

گرینچ یونیورسٹی کے ریسرچ پروفیسر ڈاکٹر اے کیو مغل نے سندھی کی مٹھاس لیے اپنے لہجے میں کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک پوری ثقافت ہے۔ اردو لوگوں کو آپس میں جوڑنے والی زبان ہے۔ اردو زبان کے شعر و ادب نے ہمیشہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے۔ ہمیں آج اس اردو کانفرنس کے انعقاد پر بے حد خوشی ہے۔ انھوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام شعرائے کرام نے بہترین کلام پیش کیا جسے ہماری یونیورسٹی کے طلبا نے بے حد پسند کیا اور مضامین نگاروں نے بھی اردو ادب اور زبان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر اپنے موقف کو بہت زبردست انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ ہم آئندہ بھی گرینچ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم پر ادب اور زبان کے فروغ کے پروگرام پیش کرتے رہیں گے۔

گرینچ یونیورسٹی میں ہونے والی اردو کانفرنس سے یہ امید بندھی ہے کہ دیگر نجی جامعات بھی قومی زبان کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے دروبام کو اردو سے مہکائیں گی اور اپنے طلبا کے اذہان کو اردو سے شاداب کریں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں