تھرپارکر میں ایک سال میں 115 افراد کی خودکشی

68 خواتین،52  مرد شامل ، ڈی آئی جی کمیٹی کی رپورٹ میں سماجی تبدیلی، جنسی ہراساں کرنا، وٹہ سٹہ و دیگر عوامل وجوہ قرار


ساجد بجیر January 02, 2022
68 خواتین،52  مرد شامل ، ڈی آئی جی کمیٹی کی رپورٹ میں سماجی تبدیلی، جنسی ہراساں کرنا، وٹہ سٹہ و دیگر عوامل وجوہ قرار۔ فوٹو: فائل

قدرتی وسائل سے مالا مال ضلع تھر پار کر کے 115افراد نے 2021 میں خودکشی کی۔

ڈی آئی جی میرپورخاص کی کمیٹی خودکشی کے اسباب سامنے لے آئی جن میں سماجی تبدیلی، جنسی ہراساں کرنا، وٹہ سٹہ اور کم عمری کی شادی، پرانے رسم و رواج، منشیات کا استعمال، بڑھتی آبادی، قرضہ اور سوشل میڈیا کا استعمال شامل ہیں۔

کمیٹی نے خودکشی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز اور تفتیش میں لاپرواہی اور میڈیکل چیک اپ میں خامیوں کی بھی نشان دہی کی ہے، تھرپارکر ضلع جہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے وہاں کے 115افراد نے 2021 میں خودکشی کرلی۔

محکمہ پولیس سے موصول اعداد و شمار کے مطابق خود کشی کرنے والوں میں 68 خواتین،52 مرد شامل ہیں جب کہ 99 اقلیتی برادری اور 21 مسلم شامل ہیں۔

تھرپارکر میں خودکشی کے بڑھتے واقعات پر ڈی آئی جی میرپورخاص رینج ذوالفقار علی مہر نے سول سوسائٹی کے نمائندوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کاشف بجیر کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی بنائی تھی۔

کمیٹی نے خودکشی کرنے والوں کے لواحقین، پولیس، ڈاکٹرز، میڈیا اور سماجی کارکنوں سے ملاقاتوں اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ ڈی آئی جی کو پیش کر دی۔

رپورٹ کے مطابق تھر میں خودکشی کے اصل اسباب سماجی تبدیلی، جنسی حراسگی، وٹہ سٹہ اور کم عمری کی شادی، مذہبی اور سماجی رسوم، منشیات کے عام استعمال، قرضہ، بڑھتی آبادی اورسوشل میڈیا پر خودکشی کے واقعات کی رپورٹس بھی ان اسباب میں شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران درست تفتیش نہیں کرتے، کیمیکل لیبارٹری سے ٹیسٹ کے لیے اجزا بھیج کر رپورٹ نہیں لی جاتی، تفتیش اور کیمیکل جائزہ کے لیے پولیس کو فنڈز نہیں ملتے، میڈیکل لیگل آفیسر نہ ہونے سے نہ تجربہ کار ڈاکٹروں سے پوسٹ مارٹم کراتے ہیں جبکہ سردخانے کی سہولت نہ ہونے سے بھی کیسز کی تفتیش اور حقائق سامنے لانے میں مشکلات ہیں۔

کمیٹی نے 13 نکات پر مشتمل تجاویز بھی دی ہیں جن میں ضلع میں ذہنی صحت کے حوالے سے سینٹرز کا قیام، بے روزگار افراد کے لیے وسائل پیدا کرنا، لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام کی مہم چلانا، ہیلپ لائن کا قیام، علماء، مذہبی اسکالرز، پنڈتوں کی جانب سے خودکشی کے مذہبی نقصانات سے آگاہی دینا، پولیس تھانوں میں مسائل سننے کے لیے کھلی کچہریاں، ٹورزم کو فروغ دینا، کلچرل تقریبات کا انعقادسمیت دیگر شامل ہیں۔ تھرپارکر میں اس وقت تک ایسے کسی بھی منصوبہ پر سندھ حکومت نے عمل شروع نہیں کیا۔

تھرپارکر کی 16 لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک ہی سائیکاٹرسٹ مٹھی سول اسپتال میں مقرر ہے جبکہ ضلع بھر میں ذہنی بیماریوں کا علاج جعلی عاملوں سے کرانے کا رواج عام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں