مسلم ریاست میں غیر مسلم کے حقوق

اسلام غیر مسلم شہریوں کو ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفّظ فراہم کرتا ہے


۔ فوٹو: فائل

لاہور: اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام، دینِ امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو، خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو، جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بے شک! تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔'' (بخاری) لہٰذا کسی بھی انسان کو ناحق قتل کرنا، اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے۔

غیر مسلم شہریوں کے قتل کی ممانعت:

اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔ کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین کے (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔'' (المائدہ) اس آیہ کریمہ میں نفساً کا لفظ عام ہے۔ لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا۔ یعنی کسی ایک انسان جو کسی بھی مذہب و قوم یا علاقے کا رہنے والا ہو کا قتل قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے۔ لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا۔

غیر مسلم شہری کے قاتل پر جنت حرام ہے:

حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو ناحق قتل کرے گا اﷲ تعالیٰ اُس پر جنّت حرام فرما دے گا۔'' (نسائی)

حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے غیر مسلم شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدۂ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں معاہد کے زمرے میں آئیں گے۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں جو آئین پاکستان کے تحت با قاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔

پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں۔ پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہریوں کی طرح تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہری تھے اور ہیں۔ اس لیے جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ ہم نے غیر مسلم شہری کیا ہے۔ ( فیض القدیرللمناوی)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنّت کی خوش بُو بھی نہیں سونگھے گا حالاں کہ جنّت کی خوش بُو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے ۔'' (بخاری)

غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کی ممانعت:

اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بدترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپؐ نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو بھی یہی تعلیم دی۔ اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو، ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے مندرجہ بالا ارشاد اور آپ ﷺ کے عمل مبارک سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنّت نبوی ﷺ ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا: اس عمل سے سنّت جاری ہوگئی کہ سفارت کار کو قتل نہ کیا جائے۔ (امام احمد بن حنبل، نسائی) گویا حضور نبی اکرمؐ کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا۔

اس حکم سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی سفارت خانے میں سفارت کاری پر تعینات ہو اِسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی از روئے حدیث حرام ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی سفارت کاروں اور انجینیرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمے داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم ﷺ کی ان تعلیمات سے صریحاً انحراف برتنے کے باوجود خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

غیر مسلم مذہبی راہ نماؤں کے قتل کی ممانعت:

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے، مفہوم: ''غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔'' (احمد بن حنبل)

ایک غیر مسلم کے ظلم کا بدلہ دوسروں سے لینے کی ممانعت:

قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے۔ جس نے ظلم کیا حسبِ دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے، اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں۔ اس کے جرم کی سزا اس کے اہل و عیال، دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جا سکتی۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: ''اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ فرما دے گا جن میں اختلاف کیا کرتے تھے۔'' (الانعام)

اسلام اس امر کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ وہ پُرامن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے۔ حضور اکرمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ''کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض سزا نہیں دی جائے گی۔'' لہٰذا ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً دوسری مخالف قوم بے گناہ افراد کو قتل کریں، ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی ﷺ کی مخالفت کرنے والے ہیں۔

غیر مسلم شہریوں کا مال لوٹنے کی ممانعت:

اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو بہ طور ِرشوت حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم بھی ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو کہ یہ گناہ ہے۔'' (البقرہ) حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے۔ ''بے شک! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔'' (بخاری)

غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاظت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے۔ ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے۔ حضرت امام ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے: ''اﷲ اور اﷲ کے رسول محمد ﷺ اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔'' (ابُویوسف: کتاب الخراج)

حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابُوعبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا: ''(تم بہ حیثیت گورنر شام) مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔'' حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''غیر مسلم شہری ٹیکس اس لیے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کے برابر محفوظ ہوجائیں۔'' (ابن قدامہ، المغنی) اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی۔ امام ابن قدامہ حنبلی نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اُسی طرح حد سے عائد ہو گی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے۔ (ابن قدامہ، المغنی) آج کل تو احتجاج کرنے والے اس کا پاس بھی نہیں رکھتے۔ افسوس!

غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کی ممانعت:

اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی تذلیل حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی دے۔ اس پر تہمت لگائے، اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے۔ اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات، اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو۔

ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو نا حق سزا دی۔ خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی ایک تاریخی جملہ ادا فرمایا: ''تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالاں کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔؟''

''الدرالمختار''

میں یہ اصول بیان ہوا ہے:

''غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔''

حضور اکرم ﷺ کی طرف سے مظلوم غیر مسلم شہری کی وکالت کا اعلان:

حضور سرورِ کائنات ﷺ نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ کی ضمانت دے۔ اگر اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم شہری پر ظلم ہو اور ریاست اسے انصاف نہ دلا سکے تو آپ ﷺ نے قیامت کے روز ایسے مظلوم لوگوں کا وکیل بن کر انہیں ان کا حق دلوانے کا اعلان فرمایا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ''خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کرو ں گا۔'' (ابُو داؤد) فرمانِ رسالت مآب ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان معاشرہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن بن جائے اور اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ہرگز تساہل نہ کرے۔

غیر مسلم شہریوں کا اندرونی و بیرونی جارحیت سے تحفظ:

اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمام غیر مسلم شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے۔ کوئی بھی فرد خواہ کسی قوم، مذہب یا ریاست سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ کسی غیر مسلم شہری پر جارحیت کرے اور اس پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ بِلاامتیازِ مذہب اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے، چاہے اس سلسلے میں اسے جارحیت کرنے والے سے جنگ کرنا پڑے۔ قرآن مجید دوسروں پر ظلم کرنے پر سخت عذاب کی وعید سناتا ہے جب کہ حرام کا ارتکاب کرنے پر سخت ترین عذاب کی وعید سناتا ہے۔ پس دوسروں پر ظلم حرام ہے اگر چہ وہ اہل ذمہ یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔

غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و تعدی سے حفاظت:

غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و زیادتی سے حفاظت کو بھی اسلام بڑی تاکید کے ساتھ لازم اور واجب قرار دیتا ہے۔ اسلام کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم و زیادتی کو ہرگز برداشت نہیں کرتا خواہ اس ظلم و اذیت کا تعلق ہاتھ سے ہو یا زبان سے۔ ظلم کی قباحت و حرمت پر اور دنیا و آخرت میں اس کے درد ناک انجام پر کثرت کے ساتھ آیات اور احادیث موجود ہیں، خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ممانعت پر تو خصوصی ارشادات گرامی وارد ہوئے ہیں۔

آیات قرآنی، احادیث مقدسہ اور فقہائے اُمت کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پامال کرے۔ اسلام غیر مسلم شہریوں کو ناصرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بل کہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں تعلیماتِ اسلام سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں