گیس کا بحران ہر شخص پریشان
ہم بھی امریکا کی منشا کے بغیر گیس پائپ لائن کھول نہیں سکتے کیونکہ اس طرح ہمارے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
کراچی:
آج سے تقریباً ساٹھ سال قبل بلوچستان کے مقام سوئی سے یہ انکشاف ہوا کہ وہاں قدرتی گیس بڑی مقدار میں موجود ہے۔
لہٰذا اس وقت کی حکومت نے اس گیس کا جال ملک بھر میں تیزی سے بچھا دیا اور شہر کراچی میں اس گیس کے شعلے بلند کرکے دکھائے گئے اور جلد ہی لکڑی اور دوسرے ایندھنوں کے بجائے سوئی کی قدرتی گیس گھروں میں پہنچانے کا اہتمام کرلیا گیا جس سے اہل کراچی حد درجہ مطمئن ہوگئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں اس کا استعمال شروع ہو گیا لیکن پھر بھی دور دراز کے مقامات جہاں آبادی کم تھی وہاں تک یہ گیس لوگوں تک نہیں پہنچی، مگر پھر بھی ملک کی 70 فیصد آبادی اس گیس سے مستفید ہو رہی ہے۔
اس گیس کی آمد سے کئی منزلہ مکانات کے تعمیر ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا، کیونکہ فلیٹوں میں لکڑی اور کوئلہ جلانے کا کوئی امکان نہیں تھا لہٰذا فلیٹوں میں گیس کی سپلائی محفوظ اور منظم طریقے سے ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوئی گیس ملک کے بیشتر حصوں میں پہنچ گئی اور لوگوں کو سستا اور محفوظ ایندھن میسر آنے لگا۔
رفتہ رفتہ سوئی گیس صنعتی پیداوار میں بھی اپنا کردار ادا کرنے لگی سستے اور معقول ایندھن کی بدولت ملک بھر کی فیکٹریوں نے بھی اس گیس سے استفادہ کرنا شروع کر دیا، مگر موجودہ حکومت کے وزرا اور مشیر اس بات پر مصر ہوگئے کہ یہ گیس جلد ختم ہو جائے گی۔
خصوصاً وزیر توانائی مسٹر حماد اظہر کا بیان جو اخبار میں شایع ہوا تھا جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملک میں ابھی بھی گیس کے ذخائر 75فیصد ہیں گویا 70 سال میں اس قدر بے دریغ استعمال کے باوجود اتنی گیس ابھی بھی موجود ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیس کا منبع ابھی بھی مسلسل قدرتی طور پر پیداوار میں مصروف ہے۔
لہٰذا گیس کی راشن بندی عوام کو شدید الجھنوں میں ڈال دے گی کیونکہ گیس کے متبادل ذرایع جس میں ایل این جی (لیکونیائیڈ نیچرل گیس) کو امپورٹ کرنے سے زر مبادلہ کے ذخائر جو کم ہیں مزید کم ہو جائیں گے اور عوام اضافی قیمت دینے کی وجہ سے حکومت سے متنفر ہو سکتے ہیں۔ جس کا ایک منظر نامہ کے پی کے بلدیاتی انتخابات سے سامنے آتا ہے۔
محترم وزیر توانائی نے جو گیس کی راشن بندی کا انتظام کیا ہے اس سے عوامی حلقوں میں موجودہ حکومت کے خلاف ایک منظم منفی رجحان کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے جب کہ آیندہ آنے والے ماہ و سال بلدیاتی انتخابات اور بعدازاں قومی انتخاب کی تاریخ آنے کو ہے جہاں تک متبادل ذرایع کا تعلق ہے تو وہ ہمارے نزدیک موجود ہے ماضی کی حکومت نے ایران سے چاغی بارڈر تک گیس کی لائن پہنچا دی جو پڑوسی ملک نے بغیر کسی خدشے کے ہمارے بارڈر تک ایک لمبی اور چوڑی گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس کا انتظام کردیا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ دنیا کتنے نظریاتی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک امریکا کا نظریہ ہے اور دوسرا روس کا۔
لہٰذا ہم بھی امریکا کی منشا کے بغیر گیس پائپ لائن کھول نہیں سکتے کیونکہ اس طرح ہمارے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب ہم افغانستان کو دیکھیں تو وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عالمی امداد پر کوئی قدغن نہیں لگائی اور دنیا افغانستان کو تسلیم کیے بغیر افغانستان کو مالی اور اجناس کی مدد کر رہی ہے۔
لہٰذا ہم اپنے محترم وزیر سے یہ استدعا کرسکتے ہیں کہ وہ بھی امریکی حکومت یا اقوام متحدہ سے رجوع کریں اور ہمارے گیس کے بحران کو بغیر کسی چپقلش اور تصادم کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کرسکتے ہیں، کیونکہ پاکستان کے عوام کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ہمارے عوام کی فی کس آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے لیکن اس کے لیے بڑے ہوم ورک اور سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
ہم یہ چاہیں گے کہ اس مسئلے کو وزیر اعظم تک پہنچایا جائے تاکہ وہ خود پاکستان کے معاشی حالات سے پوری طرح آگاہ ہوسکیں۔ لہٰذا وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے غریب عوام کا احوال پیش کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر کو ملکی پریشانی سے آگاہ کرکے گیس کا مسئلہ ایران گیس پائپ لائن کھول کر حل کرسکتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ یہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ انسانی بنیادوں پر افغانستان کا مسئلہ بھی امریکا نے حل کردیا کیونکہ افغان عوام فاقہ کشی کے قریب تھے اس لیے انھوں نے اسے اپنا مقابل دشمن نہ سمجھا بلکہ ہر قسم کی امداد کو جانے کا اعتراض اٹھالیا خواہ وہ مغربی دنیا سے ہو یا روس، چین کے حامیوں سے۔ جب کہ پاکستان مجموعی طور پر امریکی خارجہ پالیسی سے متصادم نہیں بلکہ ہم نوا ہے اور سرد جنگ کے ابتدائی دور میں پاکستان امریکا کا اتحادی رہ چکا ہے، جو بدلتے حالات کے تحت اب آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔
لہٰذا جب پاکستان افغانستان کے غریب عوام کا مقدمہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک میں پیش کرسکتا ہے تو وہ پاکستان کے عوام کا مقدمہ کیونکر پیش نہیں کرسکتا؟ جس کے عوام کی بیش تر تعداد آمدن کے اعتبار سے ایک ڈالر سے بھی کم ہے اگر پاکستان کے عوام کا مقدمہ موجودہ دنیا میں پیش نہ کیا گیا تو پاکستان میں بھی ایک مختصر تعداد بھوک مری کا شکار ہو سکتی ہے اور کھانے کی اشیا کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہیں جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ایرانی گیس کی ڈیمانڈ سے امریکا اشتعال میں آ سکتا ہے تو وہ بالکل غلط ہے کیونکہ امریکا میں جمہوری حکومت ہے جہاں بیش تر عوام یقینا اچھے حالات میں ہیں لیکن کم آمدنی والے افراد بھی موجود ہیں۔
لہٰذا امریکا کو اپنے کم آمدنی والے طبقوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا غریب ممالک کو امداد بھی دیتا رہا ہے لہٰذا وہ پاکستان کے غریب عوام کے مقدمے کو خارج ازامکان تصور نہیں کرسکتا۔ البتہ اس مقدمے کو اعداد و شمار اور استدلال کے انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ چونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کی پوزیشن کوئی مضبوط نہیں۔ کیونکہ یہاں ترکی کے انداز میں انڈسٹری ڈیولپمنٹ نہیں ہے۔ لہٰذا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اور عوام کے لیے ایرانی گیس پائپ کا اجرا خوش آیند ہوگا اور امریکا کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ایسے موقع پر پاکستان کے نام نہاد دانش مندوں کا خیال کوئی استدلال نہیں رکھتا۔ ہاں البتہ ایسے موقع پر یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے وزیر توانائی نے ایل این جی امپورٹ کرلی ہے۔ چونکہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے نہایت مناسب اور سستے داموں پر امپورٹ کی ہے۔
اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سوئی گیس کی راشن بندی کے قوی امکانات ہیں۔ مگر ایل این جی امپورٹ ملک کی صنعتی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ اور خاص طور پر ایسے موقع پر جس کو پاکستان میں انتخابات کا موسم کہا جاسکتا ہے یہ حزب مخالف کے لیے ایک زبردست مثبت قوت کا سبب بنے گا۔ جس سے برسر اقتدار طبقے کو شدید بحران کا سامنا درپیش ہوگا اور زرمبادلہ کی پوزیشن کمزور تر ہوتی جائے گی، جب کہ موجودہ زرمبادلہ ٹیکسٹائل سے نہیں بلکہ زرعی اجناس سے حاصل کیا گیا ہے۔
ایل این جی کی زیادہ امپورٹ ملک کے لیے کسی طرح بھی ترقی کی راہ میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتی اس لیے ایرانی گیس پائپ لائن کا مقدمہ پاکستان کے اداروں کو ہر صورت میں پیش کرنا ہوگا بصورت دیگر انھیں عوامی ہیجان سے نمٹنا پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے آیندہ بلدیاتی انتخابات میں عنقریب وہی صورت حال پیدا ہو جوکے پی کے بلدیاتی انتخابات میں پیش آئی ہے۔دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکن ایسے ہی سنہری وقت کے انتظار میں ہیں۔ سردیوں کے موسم میں گیس کی راشن بندی سے ہر مکتبہ فکر کا شخص رات دن پریشان ہے۔