موئن جو دڑو سندھ فیسٹیول کچھ تجاویز پہلاحصہ

انتظامیہ کی کاہلی اورعدم دلچسپی کے باعث لوگوں نے موئن جو دڑو کے قریب اراضی پر قبضہ بھی کیا۔۔۔


لیاقت راجپر February 12, 2014

اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کی پہچان میں اس کا کلچر، زبان، زمین اور بہادری کے کارنامے بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ تاریخی باتیں موجودہ دور کی عکاسی کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو آگے بڑھانے میں مدد کرتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان ہمارے خوابوں، امنگوں کا استعارہ ہے جس میں سندھ کی بڑی اہمیت ہے۔ موئن جو دڑو 5ہزار سال پرانی تہذیب کا آئینہ ہے جس میں اس وقت بھی لوگ رہن سہن میں کافی آگے تھے، وہاں ہر سسٹم صاف ستھرا اور خوبصورت تھا جس سے ایک مہذب قوم کا پتہ ملتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس کلچر اور قومی ورثے کی حفاظت نہیں کر سکے ہیں اور ہر دور میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ہم اس ورثے کو بچانے کے لیے جذباتی ہو جاتے ہیں مگر پھر ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ یہ آرکیالوجیکل سائٹ بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے جس سے دنیا میں ہماری پہچان بنی ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1972 میں موئن جو دڑو میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں دنیا کے ماہر آرکیالوجسٹ شریک ہوئے تھے تا کہ موئن جو دڑو کو بربادی اور تباہی سے بچایا جائے جس میں خاص طور پر موئن جو دڑو کو سیم اور تھور کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔

اس سلسلے میں ایک ماسٹر پلان بنایا گیا جس کا مقصد تھا کہ دریائے سندھ کی وجہ سے جو سائٹ کی طرف سیم اور تھور بڑھ رہی ہے اسے روکا جا سکے اس کے لیے یونیسکو کی طرف سے کروڑوں روپے کی امداد دی گئی جس سے دریائے سندھ پر Stone Pitching کی گئی تا کہ سیلاب کے زمانے میں دریا کا پانی موئن جو دڑو کی طرف نہ جا سکے۔ اس کے علاوہ کچھ ٹیوب ویلز لگائے گئے تا کہ گراؤنڈ واٹر میں سے زہریلے اور نمکین پانی کا اخراج ہو جائے اور واٹر اسٹیبلmaixtain ہو جائے۔ اس سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ اس پانی سے دور تک دیہات میں پانی کی سپلائی بہتر ہوئی اور زمین بھی آباد ہونے لگی۔ اب سیم اور تھور کافی کم ہو گئی۔ اس پروگرام کو مضبوط بنانے کے لیے Conocarpus اور Eucalyptus کے درخت بھی لگائے گئے جو سیم اور تھور کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید یہ بھی طے ہوا تھا کہ Soil Testing Laboratory اور Moisture کو مانیٹر کیا جا سکے۔ جو اسٹرکچر تھا اس کے اوپر اچھی میٹھی اور نمکیات سے پاک مٹی لا کر Capping کی جائے۔ زمین کے اوپر جو نمکیاتی مٹی ابھری ہوئی ہے اسے ہٹا کر اس کے اوپر خالص اور اچھی میٹھی مٹی ڈالی جائے تا کہ نمکیات نیچے نہ جا سکے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ دو spurs دریائے سندھ کے کناروں پر نہیں بن سکے اور Tree Plantation کا کام بھی سندھ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ پورا نہیں کر سکا۔ اب جو کچھ بھی تحفظ کا کام تھا وہ پوری طرح سے تو نہ ہو سکا اور پھر یہ اتھارٹی 1998 میں ختم ہی کر دی گئی اس کے بعد یہ کام آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان کے حوالے کیا گیا کہ وہ اسے مکمل کروائے اور بااختیار Directorate قائم کر کے باقی کام کو آگے بڑھائے اس سے قبل موئن جو دڑو کی اتھارٹی کے سربراہ جسٹس عبدالقادر شیخ اور محترمہ نصرت بھٹو رہ چکی تھیں۔ اب ہوا یہ کہ موئن جو دڑو لاڑکانہ ضلع میں تھا اور ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد میں جہاں سے ان کا آنا کافی دشوار ہوتا تھا اور وہ لوگ تب آتے تھے جب کوئی بڑی شخصیت موئن جو دڑو دیکھنا چاہتی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ دھیان نہیں دے سکے۔

ایک مرتبہ جب لاڑکانہ کے ڈی سی اقبال احمد بابلانی تھے ، موئن جو دڑو کی سائٹ دیکھنے کے لیے بیرونی ممالک کے کچھ آرمی کے لوگ جو پاکستان میں زیر تربیت تھے اپنی فیملیز کے ساتھ موئن جو دڑو آئے، اس وقت وہاں پر کچھ انتظامات بہتر کیے گئے تھے، کبھی کبھی یونیسکو کی طرف سے جب موئن جو دڑو کی Conservation اور Preservation کی بات ہوتی تھی اور اس کے نمایندے آتے تھے تو پھر کام میں تیزی آ جاتی تھی مگر وہ بھی کچھ عرصے کے لیے۔ اس دوران پاکستان کے کلچر اور ٹورازم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے بھی ایک اسکیم پاس ہوئی تھی کہ بند ٹیوب ویلز کو دوبارہ چلایا جائے اور سائٹ پر مرمت کی جائے جس سے 15 ہزار ایکڑ بنجر زمین آباد ہو سکتی تھی اور جو ملازم وہاں سے نکالے گئے تھے ان کا روزگار بحال ہو جائے گا۔ مگر وہ بھی نہ ہو سکا۔ اس کے بعد یونیسکو کی طرف سے ایک تین روزہ سیمینار کا انتظام کیا گیا جس کے اختتام پر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ موئن جو دڑو کی حفاظت کا کام جاری رکھا جائے گا۔ ایک آرکیالوجی پارک بنایا جائے گا، آٹو میٹک کام کرنے والے Weather Station کو Reactivate کیا جائے گا۔ برسات میں جمع ہونے والے پانی کی نکاسی کے لیے نالیاں (Drains) بنائی جائیں گی اور سال 2002 کو World Heritage Declare کیا گیا۔ اس میں علاقے کے اندر دو ہزار فٹ Square میں چاول کی کاشت دفعہ 144 لگا کر بند کی گئی تھی اور یہ ایریا ٹیوب ویلز اور پمپنگ اسٹیشن سے شروع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری ممانعت والی چیزوں کا اعلان کیا گیا تھا۔

انتظامیہ کی کاہلی اور عدم دلچسپی کے باعث لوگوں نے وہاں پر نہ صرف چاول کی کاشت جاری رکھی بلکہ موئن جو دڑو کے قریب اراضی پر قبضہ بھی کیا جس کے نتیجے میں جب ورثے سے محبت کرنے والوں نے آواز پریس میں اٹھائی تو Violation کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا، جیل میں ڈالا گیا مگر پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ یہ بھی اعلان ہوا کہ موئن جو دڑو کو لاڑکانہ ضلع کے ناظم کے کنٹرول میں دیا جائے گا جو ممکن ہے ایک بڑا المیہ ہوتا مگر شکر ہے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس سے بھی زیادہ برا حال یہ ہوا کہ عید کے موقعے پر لوگوں کو اجازت دی گئی کہ موئن جو دڑو کی سائٹ پر جائیں۔ جہاں لوگ موٹر سائیکلوں، کاروں، اونٹ گاڑیوں پر سوار ہو کر سائٹ پر گھومتے رہے اور ہمارا لوکل میڈیا اسے کوریج دیتا رہا تھا کہ کیا سماں ہے لوگ خوش ہیں اور انجوائے کر رہے ہیں، انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ آرکیالوجیکل سائٹ کتنی نازک اور اہم ہوتی ہے جس پر دبے پاؤں بھی بندہ گھوم نہیں سکتا۔ بوڑھے، نوجوان، بچے اور عورتیں بڑے گروپوں میں ہزاروں کی تعداد میں لتاڑ کرتے رہے۔ اس بے بسی پر صرف پڑھے لکھے اور ماہر خون کے آنسو روتے رہے، باقی تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔

موئن جو دڑو کی کل اراضی ایک میل Square (650 ایکڑ ) ہے جس کا ایک بٹہ دس حصہ One tenth کیکھدائی 1922میں سر جان مارشل نے کروائی تھی اس پورے ایریا کے چاروں طرف کوئی خاردار تار نہیں لگی ہوئی۔ جس کی وجہ سے جانور سائٹ کے ایریا میں آ جاتے ہیں اور پھر جب آپس میں لڑتے ہیں تو سائٹ کی زمین کو اپنے کھروں سے روند کر تباہ کر دیتے ہیں جس کو بچانے کے لیے موجودہ گارڈز کی نفری میں اضافہ کیا جائے تا کہ اس نقصان پر قابو پایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی طرف سے سائٹ کو نقصان ہو رہا ہے وہ ہے میلوں اور دیگر مذہبی تہواروں کے موقعے پر عوام کا رش۔ اس کو بھی روکا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ ایک Awareness پروگرام بنائے جس میں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے لوگوں کو بتایا جائے کہ ہمارے جو قومی ورثے ہیں ان کی حفاظت کریں اور کیسے کریں۔ اس سلسلے میں ایسے ڈرامے بنائے جائیں جن سے لوگوں میں شعور پیدا ہو۔ اس کے علاوہ سیمینار اور کانفرنسیں ہوں تو انھیں نچلی سطح پر بھی لایا جائے کیوں کہ اگر Grassroot لیول پر شعور نہیں آئے گا تو اس کا مثبت اور صحیح Response نہیں ملے گا۔

مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا تھا کہ جب میں نے Tourism کے محکمے کے پاس کوئی خاص Brochures وغیرہ نہیں تھے اور ان کا دفتر بھی نہ ہونے کے برابر تھا، عملہ بھی کم تھا۔ موئن جو دڑو دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے جسے دیکھنے کے لیے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک سے بھی لوگ آتے ہیں مگر سفر کی سہولتیں کم ہونے کی وجہ سے ٹورازم کا یہ پوائنٹ ماند پڑا ہوا ہے۔ ایک تو یہاں پر آنے والوں کو امن و امان کا خوف ہوتا ہے، لاڑکانہ سے ڈائریکٹ سواری کا مسئلہ، پی آئی اے کی سروسز ہے بھی کہ نہیں، وہاں پر ہوٹلز اور موٹلز نہ تو Well Standard ہیں بلکہ کافی مہنگے بھی ہیں۔ دریائے سندھ کو دیکھنے کے لیے کوئی approach روڈ نہیں ہے۔ آنے والے ٹورسٹ کو گائیڈ کی سہولت بہت کم ہے گرمیوں کے موسم میں سائٹ پر گرمی کا درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے ۔ اس لیے سیاح زیادہ تر سردی کے موسم میں آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں