شاعری اور حسب نسب
غم عشق سے غم زمانہ تک کون کونسا غم یہاں اپنا اظہار پا رہا ہے۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ اس کی شاعرانہ مشق جز وقتی ہے ...
شاعر نے جس رنگ سے اپنا تعارف کرایا ہے اس سے ہم مرعوب بھی ہوئے اور محظوظ بھی۔ سمجھ لیجیے کہ شاعر اپنے قاری کو و نیز نقاد کو خبردار کر رہا ہے کہ میں ہوں شاعر ابن شاعر۔ رفعت اسلام صدیقی ولد خورشید الاسلام صدیقی ساکن سیوہاوہ ضلع بجنور۔ یو پی ایسے صوبے کا مردم خیز خطہ کہ جس کی مٹی سے جنم لیا ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے۔ اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری تھے ہمارے والد گرامی کے ماموں زاد بھائی۔ اور چھپتے تھے ہمارے والد گرامی کے مضامین نظم و نثر بیسویں صدی میں تو ہم نے آنکھ کھولی ایسے گھرانے میں۔ سو جب آنکھ کھولتے ہی نظر ڈالی تو دیکھا کہ ارد گرد کتابیں ہی کتابیں۔ کوئی اردو کی کوئی انگریزی کی۔ دیوان اور دیوان زادے اور مخطوطے اور جریدے۔
بیشک شاعر اگر شاعری کی گھٹی پی کر پلا بڑھا ہے تو اسے اپنے حسب نسب پر فخر زیب دیتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ خاندانی روایات کیا چلی آتی ہیں۔ کونسی آنکھیں دیکھی ہیں۔ کس چکی کا پسا کھایا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود آخری کسوٹی خود شاعر کا اپنا تخلیقی جوہر ہے ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں
اور تخلیقی جوہر کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دلی' لکھنئو' لاہور شعر و ادب کے ایسے گہواروں سے دور کسی بستی کے ایسے گھرانے میں جسے ایسی کسی خاندانی روایت کی کمک حاصل نہیں ہے شاعری کی کلی کھلی اور تخلیقی جوہر آشکار ہوا۔ سو برادر۔ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست۔
خیر یہ تو اصولی بات ہوئی۔ واقعہ یوں ہے کہ یہاں خاندانی روایات نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ رفعت اسلام صدیقی کا مجموعہ کلام ''اک داغ نہاں اور'' خوب و مرغوب ہے۔ اسے چکھ کے ہم نے دیکھا ہے۔ ذائقہ کلام تازہ والا ہے۔ شعروں کی دروبست درست ہے۔ مصرعے چست۔ روایت سے کلام پیوست۔ مگر روایتی نہیں ہے۔ تازگی اور شگفتگی۔ اس پر بیان کی روانی۔ پھر مضامین تازہ کی بھی لہر بہر ہے۔ ذرا یہ سفر شعر دیکھئے؎
جہاں چراغ سر شام تو جلاتی تھی
میں یاد کر کے وہ چھوٹا سا گھر بہت رویا
مریخ میں زندگی نہ ڈھونڈو
دنیا میں عذاب بن گئی ہے
...............
روتے روتے ہنس دینا ابھی تک یاد ہے
جیسے بارش میں نکل آئے کبھی یک بار دھوپ
اور پھر بیچ بیچ میں اساتذہ کے رنگ سخن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کیا خوب شعر ہے؎
دید کی بھیک ملے گی کہ ترے در کے فقیر
کاسۂ قلب و نظر ساتھ لیے پھرتے ہیں
اور یاد کیجیے اس شعر کو؎
کاسہ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
اور جا بجا روایتی تغزل سے انحراف اور ہندی انگ میں اظہار؎
رت گدرائی کویل بولی
بوندیں برسیں آن ملو نا
ابر بہاری بن کر اک دن
میرے آنگن میں برسو نا
...............
اور کچھ ایسے ایسے غیر روایتی شعر؎
کچھ اب کے تار تھے چاندی کے اس کے بالوں میں
اسیر روز و شب و ماہ و سال وہ بھی تھا
اور اس پر ہمیں احمد مشتاق کا ایک شعر یاد آیا؎
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون حسین کون جواں رہتا ہے
جابجا یہ کلام اپنے عہد سے کلام کرتا نظر آتا ہے؎
عجیب وقت پڑا ہے ہمارے شہر پہ آج
کہ ایک آگ کا دریا ہے گھر سے دفتر تک
یہ وقت وہ ہے ابابیل کنکریں لے کر
پھر ایک بار بڑھیں ہاتھیوں کے لشکر تک
...............
حادثہ' قتل' ہوس' سازش و دہشت گردی
نام تم کچھ بھی رکھو واقعہ رسوائی کا تھا
سانحہ یوں تو کیا غیر سے منسوب مگر
میری گردن پہ جو خنجر تھا مرے بھائی کا تھا
اور اب ہمارا ظالم زمانہ ایک اور رنگ سے اپنا اظہار کرتا نظر آتا ہے؎
یاد آتا ہے مرے یار ترا جھنگ بہت
ہم کو اس شہر کراچی نے کیا تنگ بہت
وہ کھلی دھوپ وہ برگد کی گھنیری چھائوں
وہ شفق جس میں نظر آئے ترے رنگ بہت
اس بھرے شہر میں یہ وقت بھی دیکھا رفعتؔ
راہ میں سر تو بہت کم ہیں مگر سنگ بہت
...............
لوگ اس شہر میں جینے کی سزا کاٹتے ہیں
کھول دے حلقہ زنجیر' قضا آ جائے
دندناتے ہوئے پھرتے ہیں تکبر والے
شق زمیں ہو تو ذرا ان کو مزہ آ جائے
...............
اب ذرا زمانے کا یہ رنگ بھی دیکھئے کہ شہر ایک خوف کی فضا میں سانس لے رہا ہے ؎
منبر و گنبد و مینار سے خوف آتا ہے
شیخ کے لحن گرجدار سے خوف آتا ہے
اب تو ہر یار طرحدار سے خوف آتا ہے
شہر کے کوچہ و بازار سے خوف آتا ہے
جس کے نیچے ترے عشاق کھڑے رہتے تھے
اب اسی سایۂ دیوار سے خوف آتا ہے
بیچ آیا جو ضمیر اپنا عدو کے ہاتھوں
اس نگہبان کے کردار سے خوف آتا ہے
...............
اب ذرا غزل کو دوہے کا رنگ پکڑتے دیکھئے؎
آنکھوں کا کشکول سنبھالے ہم سے جوگی جاگ رہے
پورے چاند کی رین ہے شاید بام پہ وہ بھی آویں گے
بھیک ملے یا روپ کا درشن' تیری چوکھٹ آن پڑے
ہم منگتا ہے تیرے سائیں کس کن مانگن جاویں گے
اپنے دئے کی لو نہ بجھانا دن نکلے یا چاند چڑھے
یاں تو کالے من والے بھی سورج اوڑھ کے آویں گے
اور اب یہ رنگ تغزل بھی دیکھئے۔ کیا رواں دواں غزل ہے جیسے ندی بہہ رہی ہے؎
کسی ماہ وش کا حصار ہے' کسی گل بدن کا شکار ہے
کوئی شوخ اس کا بھی یار ہے کہ جہاں میں جس کا نہ جوڑ ہے
جہاں تو نے بدلا تھا راستہ' جہاں میں نے لکھا تھا الوداع
ترے شہر میں جو قدم رکے' مرے سامنے وہی موڑ ہے
نئے فتنے بپا کیے ہوئے ہے وہ گھنگھروئوں کی جھنک الگ
جو ستم ہیں رقص کے زاوئیے' تو غضب کمر کا موڑ ہے
جسے لکھ کے میں تو بکھر گیا' جسے سن کر وہ بھی تڑپ اٹھا
وہ مری غزل مرے دوستو' کئی رتجگوں کا نچوڑ ہے
مطلب یہ کہ غزلوں کا یہ مجموعہ رنگا رنگ ہے۔ کتنے خیال کتنے رنگ یہاں اپنی جھلک دکھا رہے ہیں۔ کبھی یہ غزل دوہے کا رنگ پکڑ لیتی ہے' کہیں وہ ہندی گیت سے آنکھ مچولی کرتی نظر آتی ہے اور پھر غم عشق سے غم زمانہ تک کون کونسا غم یہاں اپنا اظہار پا رہا ہے۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ اس کی شاعرانہ مشق جز وقتی ہے۔ ملازمت سے جتنا وقت بچا شعر کہہ لیے مگر خوب جز وقتی شاعری ہے کہ کل وقتی کا تاثر دیتی ہے۔