نکلے اپنی تلاش میں

چناب کے پانیوں کے قصے اور قلعہ رام کوٹ میں گزارے ایک دن کی یادیں


حارث بٹ December 05, 2021
چناب کے پانیوں کے قصے اور قلعہ رام کوٹ میں گزارے ایک دن کی یادیں

ISLAMABAD: ایک ایسی صبح جس کے بارے میں کبھی سوچا نہ تھا۔

اچانک سی خبر ملی کہ کچھ پاگل لوگ ہر سال چناب کنارے پوری رات ''سوہنی کی طرح''دھیان لگا کر تپسیا کرتے ہیں کہ شنید ہے کہ سوہنی خزاں آنے سے کچھ دن پہلے کسی صبح سورج دیوتا کی پہلی چند کرنوں کے ساتھ جموں سے آنے والے ''توی'' اور کشمیر سے آنے والے چناب کے سنگم پر کچھ لمحوں کے لیے جلوہ افروز ہوتی ہے۔

ایسی جگہ جہاں توی جب چناب کے ساتھ ملتا ہے تو پھر وہ توی نہیں رہتا، چناب بن جاتا ہے۔ وہیں پر سوہنی کمہارن بھی سورج دیوتا کی پہلی چند کرنوں کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اور پھر انھی کرنوں کے ساتھ مل کر صبح کی روشنی بن جاتی ہے اور یقین مانیں ایسا ہی اُس دن بھی ہوا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے توی اور چناب کے سنگم پر سے سوہنی کمہارن کو ایک جل مچھلی کی طرح باہر آتے ہوئے دیکھا جو چند ہی لمحوں میں سورج دیوتا کی پہلی کرنوں پر سوار ہو کر سورج دیوتا کے اندر سما گئی کہ جیسے سورج دیوتا ہی اس کا مہیوال ہو۔

وہی چناب جس نے پہلے کبھی مہیوال سے حسد کرتے ہوئے سوہنی کو اپنی اندر سما لیا تھا، آج وہی چناب سوہنی کو اس کے مہیوال کے حوالے کرتا ہے۔ دنیا کے نظر میں شاید وہاں دریائے توی اور دریائے چناب کا ملاپ ہوتا ہے مگر اصل میں وہاں سوہنی اور مہیوال روز چوری چپکے دنیا کو دھوکے میں ڈال کر ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں۔

ذکر ہو رہا ہے چناب کے پانیوں کا تو چناب کے پانیوں کو آپ ہرگز معصوم مت جانیے۔ یہ بھولے بسرے نظر آنے والے پانی نہ تو گنگا جمنا کی طرح پوتر ہیں اور نہ ہی مقدس۔ یہ قاتل پانی ہیں، رقیب پانی ہیں۔ یہ پانی میرے مہینوال کے رقیب تھے۔ چناب کے پانی جو کہ سوہنی کے عشق میں مبتلا تھے، لاکھ جتن کے بعد بھی سوہنی کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے کہ سوہنی کے لیے یہ عام پانی تھے۔ سوہنی اور مہیوال جب ایک دوسرے کی محبت گرفتار ہوئے تو یہی پانی چالاک لومڑی کی طرح معصوم سوہنی کے ہم جھولی ہو گئے اور سوہنی مہیوال کے ملن کا سبب بنتے رہے۔

سوہنی روز گھڑے پر بیٹھ کر چناب کے پانیوں کو پار کرتی اور اپنے مہیوال سے رازونیاز کی باتیں کرتی۔ چناب بے چارہ چپ چاپ یہ دیکھتا اور اندر ہی اندر جلنے لگا۔ حسد اس قدر بڑھا کہ ساون کے دنوں میں جب چناب کے سوہنی پر عاشق پانی، چڑھے ہوئے تھے تو کچے گھڑے کا بہانہ بنا کر چناب نے ہمیشہ کے لیے سوہنی کو اپنے اندر سما لیا۔ انہی پانیوں میں کہیں میری سوہنی کی قبر ہے۔

کچا گھڑا۔۔۔۔۔بڑے پانی۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔رقابت۔۔۔۔دریا۔۔۔۔مہیوال کی چیخیں۔۔۔سوہنی کی مسکراہٹ۔۔۔۔موت۔

ذکر ہے ایک شام کا جو دوستوں کے درمیان چناب کے پانیوں کے کنارے گزری۔ شام بس ہونے کو تھی۔ سورج کے ڈھلنے میں فقط چند گھڑیاں باقی تھیں ہیڈ مرالہ سے سید پور کو جاتی سڑک پر میں رانا پائین کا منتظر تھا کہ بلال بھائی کی تیزرفتار موٹر سائیکل میرے پاس آ کر رکی۔ پیچھے رانا بھائی بھی تھے۔

دونوں ہی مٹی میں اَٹے ہوئے تھے۔ رسماً علیک سلیک کے بعد رانا پائین بولے کہ بٹ ساب دوڑ لگائیں، سورج پکڑنا ہے اور پھر ہم نے سید پور کو جاتی سڑک پر اپنی بائیکس دوڑا دیں۔ مناسب جگہ کی تلاش کے بعد دونوں صاحبان اپنے اپنے کیمرے تیار کیے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ جوں جوں سورج ڈوب رہا تھا توں توں میرے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ بقول بلال بھائی کے ''ابھی سورج پل کے نیچے اور پانی کے بالکل درمیان میں کچھ اس طرح آ جائے گا کہ اس کا ایک کونز پُل کے نیچے والے حصے کو چھو رہا ہو گا اور دوسرا کونہ پانی کو۔ ''

میں کچھ دیر پہلے چناب کی دوسری طرف ہو کر آیا تھا۔ پہلے وہاں پانی اس قدر ہوتا تھا کہ سورج پانی کے اندر ڈوب رہا ہوتا تھا، مگر اب وہاں تھوڑے سے پانی کے علاوہ فقط ریت ہی ریت تھی۔ دریا کا کنارہ بھی پھیل گیا تھا۔ پہلے سورج وہاں پانی میں ڈوبتا تھا اور اب سورج ریت میں ڈوب رہا تھا۔ چناب سوکھ رہا تھا۔

اب میں چناب کے دوسری طرف بلال بھائی کے کہنے پر ٹکٹکی باندھ کر سورج کو دیکھ رہا تھا کہ سورج ابھی پل کے نیچے آئے گا اور اس کا ایک کونا پُل کی نچلی سطح اور دوسرا پانی کو چھوئے گا مگر۔۔۔۔

سورج نہیں ڈوبا۔ سورج پل کے نیچے آیا ہی نہیں۔ تارکول سے بنے پل پر سے سورج غائب ہو گیا۔ آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب وہ سورج کو ڈوبنے نہیں دیتی۔ ڈوبنے سے پہلے ہی اپنے اندر گم کر لیتی ہے۔ تو گویا اب ہم چناب کنارے سورج ڈوبنے کے منظر سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

ہر بڑے شاعر نے چناب کو کہیں نہ کہیں اپنی شاعری میں استعمال ضرور کیا ہے۔ جو لطف حافظ برخوردار کی شاعری میں ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔

''میں نیل کرائیاں نیل کاں۔۔۔۔ میرا تن من نیلوں نیل
میں سودے کیتے دلاں دے۔۔۔۔ تے تہر لے نین وکیل
رب بخیلی نہ کرے۔۔۔۔ تے بندہ کون بخیل
رات چنے دی چاننی۔۔۔۔ تے پونی ورگا کاں
اڈیا جاناں باز تے اوہنوں۔۔۔۔ پیندی رات ''چناں''
تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگلا۔۔۔۔ تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
گن گن ڈوں دی اٹیاں۔۔۔۔ وچ لاں ''جٹ'' دا ناں
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے۔۔۔۔۔ سارے جھگڑے جانے مُک
باج تیرے او مرزیا۔۔۔۔۔ نہیں جان میری نوں سُکھ۔

نیلک' اس نیل لگے ریشمی یا سوتی دھاگے کو کہتے ہیں جو پنجاب میں نوجوان اپنے بازو پر باندھتے تھے۔ جب اس دھاگے کا رنگ پھیکا پڑ جاتا تو اس پر دوبارہ نیل لگا لیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ نیل جس شخص کے جسم پر بھی لگ جاتا اور وہ نیلا ہوجاتا تھا۔ نیلا رنگ زخموں کا نشان ہے۔ حافظ برخوردار اپنے تن من دونوں کے نیلو نیل ہونے کا بیان کر رہے ہیں۔

حافظ برخوردار کی اس شاعری سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو مگر چوںکہ یہ پنجابی میں ہے تو اکثر لوگ اس سمجھ نہیں پاتے۔ چلیں آج اس کا اردو ترجمہ بھی دیکھتے ہیں:

میں نیل کرائیاں نیل کاں۔۔۔۔۔۔ میرا تن من نیلوں نیل

یہ دراصل پنجابی بولیاں سی ہیں جس میں احساس کا اظہار تمثیلی ہے۔ دو مفہوم ہیں اس کے۔ ایک تو محبت کا، دوسرا کرب کا، شاعری کا حقیقی تاثر ہر شخص اپنی کیفیت کے مطابق لیتا ہے۔ جیسے میں نے اس قدر درد جھیلے کہ تن من نیلا ہو گیا۔

میں سودے کیتے دلاں دے۔۔۔۔۔ تے تہر لے نین وکیل
میں نے اپنے دل کا سودا اپنی آنکھوں کو وکیل بنا کر کیا ہے، مطلب محبت کی پہلی گواہی تو آنکھیں ہی دیتی ہیں۔

رب بخیلی نہ کرے۔۔۔ تے بندہ کون بخیل

اگر رب آپ کو دے رہا تو پھر کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ وہ آپ پر کسی قسم کی تنگی لے کر آئے۔

رات چنے دی چاننی۔۔۔۔ تے پونی ورگا کاں
اڈیا جاناں باز تے اوہنوں۔۔۔۔ پیندی رات چناں

پورے چاند کی رات میں سفید ہوتے کوے کی شبیہہ بے جب کہ باز اڑتا ہی جا رہا اور چناب تلک جا کر رات ہو گئی اسے۔

تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگلا۔۔۔ تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
وآن کی چھاؤں تلے ایک پنگھوڑے (جھولا) پر بیٹھی لہک رہی
اٹیاں گننا پنجاب کی ایک کہاوت سے عبارت ہے، معانی انتظار کے ہیں
گن گن ڈوں دی اٹیاں۔۔۔۔ وچ لاں ''جٹ'' دا ناں
اور جٹ (مرزا جٹ) کیوں کہ جٹی (صاحباں) کا ہیرو ہے سو اسی کے نام کی مالا جپتا ہے۔
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے۔۔۔۔ سارے جھگڑے جانے مک
باج تیرے او مرزیا۔۔۔۔۔ نہیں جان میری نوں سکھ

میں یہاں تنہا ترے بن نہیں رہ پا رہی مجھے اپنے ساتھ ہی لے چلو کہ ہجر و وصال کے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔
تیرے بعد مرزا (مرزا صاحباں) تری صاحباں کی جان کو سکھ نہیں۔

اس شاعری کو عارف لوہار، ان کے والد عالم لوہار، امان اللہ، طارق عزیز سمیت بہت سے لوگوں نے پڑھا ہے مگر مجھے شدید مزہ طارق عزیز کا ہی آتا ہے۔
اب اگر چناب کی شام کا ذکر ہو ہی چکا تو چناب پر دھند میں لپٹی ہوئی میٹھی صبح کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ جو ایک بار چناب کنارے اُگتے اور سورج کو دیکھ لے تو پھر خواب بھی صرف اور صرف چناب کے ہی آتے ہیں۔ جولائی اگست کے مہینوں کی صبح میں بھی میں بھی چناب مکمل طور پر دھند کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور یہ منظر کسی فسوں سے کم نہیں ہوتا۔ رات کو چناب کے بارے بند آنکھوں سے دیکھے خواب، ایسی ہی صبح کھلی آنکھوں سے پورے ہو سکتے ہیں۔

چناب کنارے ہمیشہ ایک شاندار سورج ہی طلوع ہوتا ہے
ایک شاندار سورج جو آہستہ آہستہ ابھرتا ہے
ایک شان دار دن کا سورج
خدا کرے کچھ نہ بدلے
خدا کرے قسمت ساتھ دے
خدا کرے کچھ نہ بدلے
خدا کرے ہمیشہ ہر طرف شگوفے کھلیں
خدا کرے پیچھے پہاڑوں پر برف ہمیشہ ہوتی رہے
خدا کرے چناب کے پانی ہمیشہ رواں رہیں
خدا کرے کہ چناب یونہی راوی میں چپ چاپ بہتا رہے۔ چناب۔۔۔
جو چپ چاپ ایک عرصے سے
پاروشنی (راوی) میں بہہ رہا ہے۔

کیا آپ نے کبھی کسی نہر کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو پہلی فرصت میں ہی یہ سفر کریں کہ نہر کنارے سفر کرنے پر قدرت کے وہ حسین مناظر دیکھتے ہیں، مختلف اقسام کے پرندوں کی بولیاں سنتے ہیں جن کو عام حالات میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ ضروری تو نہیں کہ آپ کیمپ کے اندر سے نانگا پربت یا کسی بہت ہی خوب صورت جھیل کی تصویر لیں۔

اپنا چناب کسی سے کم ہے کیا۔۔۔۔ چناب کنارے کیمپ لگائیں اور ایک خوب پکنک منائیں۔ ایسے ہی ایک بار میرے ایک دوست عابد نے مجھے اکسایا کہ کسی صبح چناب کنارے کیمپ لگایا جائے اور کباب خود بنا کر کھائے جائیں۔ ساری منصوبہ بندی کرلی گئی، سامان کی فہرست بن گئی۔ چوںکہ عید الاضحیٰ کچھ دن پہلے ہی گزری تھی اس لیے قیمہ وافر مقدار میں موجود تھا۔

بلاشبہہ موسم ان دنوں حبس کا تھا مگر اتنا بھی نہ تھا کہ پکنک پر نہ جایا جا سکے۔ اب جو ہم نے چناب کے ایک کنارے کیمپ لگایا تو شدید حبس تھا۔ اتنا حبس کہ ہماری آگ نے جلنے سے مکمل طور پر انکار کر دیا۔ حالاںکہ مجھے عابد نے کہا بھی تھا کہ یار بٹ گھر سے کوئی چھوٹا سا سلنڈر لے جاتے ہیں مگر مجھے ہی نیچرل انجوائے کرنے کا ایک خاص جراثیم تنگ کر رہا تھا۔ مگر جب دریا کنارے شدید حبس اور مکمل طور پر بند ہوا نے آگ جلانے سے انکار کردیا اور آگ جلی بھی تو جس طرح کا وہاں ماحول تھا تو یقین کریں میرے نیچرل انجوائے کرنے کے سارے جراثیم غائب ہو گئے۔

پہلی بات تو یہ کہ آگ جلانے کے لیے میں کوئلے گھر ہی بھول گیا۔ بیچ راستے یاد آیا تو حسبِ توقع عابد نے ''بے عزتی خراب کی''۔ اب جو راستے کی کسی دکان سے کوئلے لیے تو نہ جانے کوئلوں میں کوئی برائی تھی یا پھر ہماری قسمت میں کہ عین وقتِ تفریح کوئلے بھول گئے کہ ان کا کام جلنا ہے اور اگر وہ نہ جلے تو ہمارے کباب نہ بن سکیں گئے۔ کوئلوں کو یہ بتلانے کے لیے کہ آگ کیا شے ہوتی ہے، ہم نے ایک راہ گیر سے کچھ لکڑیاں ادھار بھی مانگیں، ڈھیر سارا پیٹرول بھی اپنی موٹر سائیکل سے نکال کر پھونک دیا مگر کوئلے صاحب اپنی یادداشت مکمل طور پر بھول چکے تھے۔

نہ انھیں جلنا تھا، نہ وہ جلے۔ رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا اس دکان دار پر جس نے مجھے کوئلے دیتے وقت کہا تھا کہ ''آپ ایک بار کوئلے لے کر جائیں گے تو یاد کریں گے۔'' اور اب ہم واقعی نہ صرف اسے یاد کر رہے تھے بلکہ استطاعت کے مطابق ان اعلیٰ حضرت کی شان میں گستاخیاں بھی کر رہے تھے۔ ٹھیک ٹھاک قسم کی محنت (محنت سے زیادہ ذلالت لفظ یہاں مناسب رہے گا) کے بعد بالاخر تین کباب فرائی ہو ہی گئے۔ آگ اتنی ہی تھی کہ تین بن سکتے ورنہ ہم مزید بنا لیتے، کباب نہ بھی بناتے کم از کم چائے تو بنا ہی لیتے کیوںکہ چائے کا مکمل سامان بمعہ کیتلی ہمارے پاس موجود تھا، کچھ اگر نہیں تھا تو وہ آگ نہیں تھی جس نے ہماری پکنک خراب کردی ورنہ تیاری تو ہماری پوری تھی۔

آپ جتنی مرضی ترقی کر لیں۔ آپ کا سکون آپ کے اصل ہی کے پاس ہوتا ہے اور ہر بار خوشیاں پانے کے لیے آپ کو اپنے اصل ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آپ کو شہروں کے بناوٹی ماحول سے نکل کر قدرتی ماحول میں آنا ہی پڑتا ہے۔

روح بنجر ہے اور پیاسا من

کبھی آؤ چناب کی صورت

کس قدر پیارا شعر ہے یہ معروف شاعرہ دیا خلیل صاحبہ کا کہ چناب میں یہ صلاحیت موجود ہے جو بنجر روح اور پیاسے من کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ اگر اپنا پیٹ بھرا ہو تبھی آپ دوسرے انسان کو کچھ دے سکتے ہیں۔ خالی جیب بھلا کسی کا کیا بھلا کر سکتی ہے۔ راوی اور ستلج نے کیا کسی کے من کی پیاس بجھانا ہے کہ چناب ہی راوی کے اندر بہہ رہا ہے۔ اصل راوی کے پانیوں کا رخ تو دور کہیں دور ہی تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسے میں راوی کو رواں رکھنے کا طریقہ ہمارے بڑوں کو یہی سوجھا کہ چناب میں سے ہی ایک نہر نکال کر اسے راوی میں ڈال دیا جائے۔

چناب کے پانیوں کے بعد کوئی پانی اگر واقعی آپ کو سیراب کر سکتا ہے، آپ کی بنجر روح اور پیاسے من کی پیاس بجھا سکتا ہے تو وہ جہلم کا پانی ہی ہے۔ خدائے با برکت ہمارے جہلم کے پانیوں کو سلامت رکھے۔ اب بات اگر جہلم کے پانیوں کی چل ہی پڑی ہے تو آئیے آپ کو جہلم کے پانیوں پر بنے منگلا ڈیم کے بیچوں بیچ کھڑے ایک قلعے کا احوال سناتا ہوں جس پر پورا ایک دن ہماری حکم رانی رہی تھی کہ اپنے اس سنگھاسن کو پانے کے لیے میں نے اپنے دل کے بہت ہی قریب احباب کے ساتھ جہلم کے پانیوں پر سفر کیا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک شام میرے بہت ہی پیارے ماجد مشتاق کی ڈسکہ سے کال آگئی کہ اے پیارے بٹ! کل قلعہ رام کوٹ جانا ہے۔ میری سات نسلوں میں سے بھی کسی نے رام کوٹ کا نام نہ سنا تھا۔ فوری طور پر میں نے رام کوٹ کو انٹرنیٹ پر کھنگالا تو پتا چلا کہ آزاد کشمیر میں کہیں پانیوں کے کنارے ایک قلعہ ہے جو کہ رام کوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس وقت یہ بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ رام کوٹ منگلا ڈیم کے بیچوں بیچ واقع ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کشتی نما چھوٹے سے بحری جہاز پر ایک گھنٹہ سفر کرنا پڑے گا۔ اگر مجھے ذرا سا بھی گمان ہوتا تو یقیناً میں ماجد بھائی کو منع کردیتا کیوںکہ بیگم کے بعد بلندی اور پانی سے مجھے شدید خوف آتا ہے۔

میں نے قلعہ رام کوٹ کی جو تصاویر دیکھی تھیں، اُن میں قلعے کی فصیل کے ساتھ پانی تھا تو مجھ نادان نے یہی جانا کہ قلعہ ڈیم کے کنارے پر ہے۔ خیر ماجد بھائی کا شام ڈھلے فون آیا تو میں نے یہی کہا کہ سوچ کر رات نو بجے تک مطلع کروں گا۔ یقیناً میرا ارادہ نہ جانے کا تھا ورنہ میں ماجد بھائی کو اسی وقت حامی بھر دیتا۔ رات ٹھیک نو بجے ماجد بھائی کا پھر سے فون آ گیا اور میں نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ ماجد بھائی کو منع کر دیا۔

اگلے دن چوںکہ اتوار تھا تو آفس کا بہانہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بس کہہ دیا کہ دل نہیں چاہ رہا۔ ماجد بھائی نے بھی کہہ دیا کہ اگر میں جاؤں گا تو وہ جائیں گے بصورتِ دیگر وہ بھی نہیں جائیں گے۔ یہاں سے میں دو باتیں سمجھ گیا۔ اول تو یہ کہ ماجد بھائی کی شدید خواہش ہے کہ وہ رام کوٹ جائیں۔ دوم یہ کہ یہ سفر میرے لیے بھی لازم ہے۔ اب میرے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں نے فون بند کر دیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا کیوںکہ مجھے صبح سویرے سیالکوٹ سے گوجرانوالہ جانا تھا اور ماجد بھائی کو ڈسکہ سے گوجرانوالہ۔ گوجرانوالہ چوک ہم دونوں کے ملنے کا مقام ٹھہرا تھا۔

اللہ بھلا کرے ہماری اس فیس بُک کا جس نے ہمیں اپنا اس قدر عادی بنا دیا ہے کہ ہم آج شاید ایک وقت کے کھانے کے بنا تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر اس فیس بک کے بنا نہیں۔ ہر چھوٹے اور غیرضروری کام کا اسٹیٹس ہمیں ضرور لگانا ہوتا ہے۔

میں نے بھی ایک ہلکا پھلکا سا اسٹیٹس لگا دیا کہ ہماری شاہی سواری گوجرانوالہ جا رہی ہے۔ فریال آپا نے فوراً پوچھا کہ حارث کہاں جا رہے ہو؟ تو میں نے بات گول مول کردی کہ بس یوں ہی گوجرانوالہ جا رہا ہوں کیوںکہ مجھے سختی سے تائید کی گئی تھی کہ اس بات کو راز ہی رکھنا ہے کہ چند آوارہ مزاج لوگ رام کوٹ کی جانب نکل پڑے ہیں۔ فریال آپا نے بس اتنا ہی کہا کہ خیروعافیت سے جاؤ اور بات ختم ہوگئی۔ فریال آپا کے بارے میں اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ آپ ''رَش لیک'' جیسے کئی متعدد اہم ٹریکس کر چکی ہیں۔ محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب انھیں فی میل تارڑ کہتے ہیں اور آپ نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ سیاحت کے میدان میں ہر اس جگہ پر قدم رکھنا ہے جہاں تارڑ صاحب نے قدم رکھے۔

سیالکوٹ سے روانہ ہونے کے کم و بیش ایک گھنٹے کے بعد میں گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ ماجد بھائی مجھ سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ اب ہم دونوں مل کر اپنے لاہوری دوستوں کا انتظار کرنے لگے جو دھند ہونے کے باعث تاخیر کا شکار تھے۔ ماجد بھائی کی اور میری قسمت اچھی تھی کہ ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور گوجرانوالہ کے گرینڈ ٹرنک روڈ پر پھیلی دھند کے اُس پار سے ایک کوسٹر آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی ہمارے پاس آ کر رکی تو گیٹ کُھلتے ہی سب سے پہلے ایک پیٹ باہر نکلا اور پیٹ کے پیچھے سے دلپزیر بھائی برآمد ہوئے۔ دلپزیر بھائی جنھیں میں پیار سے دل بھائی کہتا ہوں ایک نہایت ہی نفیس لاہوری ہیں۔

اچھے خاصے ٹریکر بن چکے ہیں بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ پکے ٹریکر بن چکے ہیں۔ کرومبر لیک، چٹہ کھٹا سمیت بہت سے ٹریکس کر چکے ہیں۔ دلپزیر بھائی کے پیچھے پیچھے رانا عثمان نے نے کوسٹر میں سے اپنی مُنڈی باہر نکالی۔ رانا عثمان جتنے اچھے ٹریکر ہیں، اتنے ہی اچھے فوٹوگرافر بھی ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا کہ رانا عثمان ٹریکر زیادہ اچھے ہیں یا فوٹو گرافر۔ اُن کی فوٹوگرافی نے ہمیشہ میرا دل جیتا ہے۔

رانا عثمان وہ ہے جس سے میں دل کی گہرائیوں سے بھلا کی حسد کرتا ہوں اور آج سے نہیں کرتا جب سے ان کو جانا ہے، تب سے ان سے حسد ہی کی ہے اور اس حسد میں ماشاء اللہ تعالیٰ دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ حسد شاید غلط ہے مگر پھر میں نے اپنے آس پاس کے بہت سے لوگوں کو شاید حاسد پایا۔ مثلا ً تارڑ صاحب ''اورخاں پاموک'' سے شاید حسد کرتے ہیں کہ وہ اس ناول نگار جیسا ایک بھی ناول نہیں لکھ سکتے۔

حسد کے باوجود ''سرخ میرا نام'' کا پیش لفظ انھوں نے ہی لکھا۔ تارڑ صاحب خود کہتے ہیں کہ جب میں نے کاشف مصطفیٰ صاحب کا سفر نامہ''دیوار گریہ کے آس پاس'' پڑھا تو مجھے کاشف سے سخت حسد محسوس ہوا کہ میں اتنے سفر نامے لکھنے کے باوجود بھی اس سفرنامے جیسا سفر نامہ نہیں لکھ سکتا۔ تو جب تارڑ صاحب جیسا انسان حاسد ہو سکتا ہے اور پھر اس کا اظہار بھی کر سکتا ہے تو پھر میں کیوں نہ کھل کر اپنے حسد کا اظہار کروں کہ رانا عثمان جیسی ایک بھی تصویر میں اپنی پوری زندگی میں نہیں بنا سکتا۔ رانا پائین کو میں ایک دعا تو ہمیشہ دیتا ہوں کہ آپ اپنی آخری سانس تک ایسی تصویریں بناتے رہیں جو میرے حسد میں اضافہ کرتی رہیں۔

رانا عثمان کے پیچھے ہماری پیاری سی لبنیٰ آپا چھپی ہوئی تھیں۔ لبنیٰ آپا کی تخلیق کردہ ٹیلی فلم ''دوسراہٹ'' ایک نجی چینل کی زینت بن چکی ہے۔ لبنیٰ آپا وہ ہیں جن سے میں نے قلم چلانا سیکھا ہے۔ ایک اچھے استاد کی طرح انھوں نے ہمیشہ میری راہ نمائی کی کہ میرے کسی بھی مضمون میں کہاں کسی چیز کی کمی ہے یا کون سا مواد اضافی ہے جس کی مضمون میں قطعاً ضرورت نہیں۔ لبنیٰ آپا کے پیچھے قرۃالعین حیدر تھیں۔ آپ ایک بنکر ہیں اور ادب اور سیاحت سے یکساں شغف رکھتی ہیں۔

سب احباب ایک دوسرے سے مل چکے تو ناشتے کی جانب توجہ ہوئی۔ پاس ہی ایک پائے فروش تھا۔ نومبر کی ہلکی پھلکی دھوپ کے ساتھ پائے کا ناشتہ بھلا کسے ناپسند ہوگا۔ لہٰذا یہی طے پایا کہ ناشتہ اگر ہو گا تو پائے کا ہی ہو گا۔ پائے اور نان کے ناشتے نے سب کو ہی ری چارج کر دیا تھا۔ نومبر کی ہلکی ہلکی دھند کی وجہ سے جو سُستی سی سب پر چھائی ہوئی تھی، وہ یک دم دور ہوگئی۔

پائے کا گرم گرم شوربہ نہ صرف گلے کو سکون پہنچاتا رہا بلکہ جسم کو حرارت بھی پہنچا رہا تھا۔ ناشتہ خواہ پائے کا ہو یا کسی اور چیز کا، چائے لازم و ملزوم ہے۔ ویسے بھی زندگی سے اگر چائے کو نکال دیا جائے تو پیچھے صرف سر درد ہی بچتا ہے۔ ہم سب ابھی پائے نوش فرما رہے تھے کہ سارہ آپا کی کالز پر کالز آنا شروع ہوگئیں۔

سارہ آپا کو اپنے مجازی خدا اور ایک عدد شرارتی کاکے کے ساتھ جہلم کے پُل پر ہمیں ملنا تھا اور پھر ہمارے ساتھ شریکِ سفر ہو جانا تھا۔ وہ راولپنڈی سے نکل چکی تھیں جب کہ ہمارے ابھی پائے کی دکان سے باہر نکلنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ پائے والے نے تقریباً دھکے دے کر ہمیں دکان سے باہر نکالا۔ نومبر کی صبح کی ہلکی ہلکی دھند اب ہلکی پھلکی دھوپ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ گوجرانوالہ سے نکل کر ہماری کوسٹر رضا علی عابدی کی جرنیلی سڑک پر چڑھ چکی تھی کہ یک دم لبنیٰ آپا چیخ پڑیں، ''ہائے میری شال پائے والے کے پاس رہ گئی۔'' لبنیٰ آپا اپنی شال وہیں پائے کی دکان پر بھول آئی تھیں۔

سب کو ہی سفر شروع کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ کسی ایک کی نظر بھی لبنیٰ آپا کی شال پر نہ پڑی۔ یقینی طور پر کوسٹر کو اب واپس ہی جانا تھا۔ ہنسی مذاق سب چلتا رہا اور ہماری کوسٹر نے جی ٹی روڈ پر بنے مشہورِ زمانہ میاں جی ریسٹورنٹ کے سامنے رانا عثمان کے حکم پر بریک لگا دی۔

یہاں پر میٹھے اور چائے کا دور چلنا تھا۔ چوںکہ سردیوں کا ہلکا پھلکا موسم تھا تو واش روم کے لیے رکنا بھی ضروری تھا۔ چائے اور اس کے لوازمات سے فارغ ہونے کے بعد جب سب لوگ واپس گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں نے سوچا کہ میں بھی لگے ہاتھوں کے فریضہ سرانجام دے ہی دوں، میں بھی واش روم ہو ہی آؤں، کیوںکہ واضح طور پر یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ گاڑی اب منزلِ مقصود سے پہلے نہ رُکے گی۔ میں ابھی واش روم سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ میں نے کوسٹر کو ریسٹورنٹ کی حدود سے باہر جاتے ہوئے دیکھا۔ میرے ہم سفر اپنی موج مستیوں میں اس قدر گم تھے کہ کسی ایک کو بھی میری کمی کا احساس تک نہ ہوا۔ میں نے کوسٹر کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ بھلا ہو ڈرائیور کا کہ جس نے دیکھا کہ بھلا مانس بٹ دیوانہ وار کوسٹر کے پیچھے بھاگ رہا ہے مجھے دیکھتے ہی اس نے بریک لگا دی اور یوں میں تقریباً سب کو ہی کوستا ہوا کوسٹر میں سوار ہو گیا۔

گلزار کا دینہ شہر اور انور مقصود کا جہلم کا پُل بھی گزر گیا۔ رانا عثمان کے کہنے پر ڈرائیور نے ایک جگہ بریک لگا دی کہ یہاں سارہ آپا اپنی مجازی خدا اور اپنے ایک عدد کاکے کے ساتھ ہماری منتظر تھیں۔ سارہ آپا نے شدید طرح سے ہمیں کُوستے ہوئے ہمارا استقبال کیا کہ منیر نیازی کی طرح ہم بھی بہت دیر کر چکے تھے۔ جہلم تک پہنچنے میں ہمیں واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔

سارہ آپا بمعہ اہل و عیال کوسٹر میں سوار ہوئیں اور ہماری کوسٹر جہلم میں گرینڈ ٹرنک روڈ سے منہ موڑتے ہوئے منگلہ کی جانب مڑ گئی۔ پنجاب کی حدود سے نکل کر جونہی آپ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو موسم کے ساتھ طبعیت پر بھی خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منگلا کینٹ کو جانے والا یہ راستہ کبھی شورسینی راجا پورس کی جاگیر ہوا کرتا تھا۔ پورس، چناب اور جہلم کے دریاؤں کے درمیان پھیلی اس سلطنت کا راجا تھا جس کی علم برداری بعد میں بیاس تک دراز ہوگئی۔ اسی راجا پورس نے اپنی بیٹی منگلا کے نام پر منگلا قلعہ تعمیر کیا جواب منگلا جھیل کے کنارے پر ہے۔ دوسرے کنارے پر رام کوٹ کا قلعہ ہے جسے مسلمانوں نے تعمیر کیا اور سکھوں نے استعمال کیا۔

منگلہ کے پاس پہنچ کر رانا عثمان نے کوسٹر رکوا دی اور کہا کہ وہ آگے کا راستہ کسی سے پوچھ کر آتے ہیں۔ ہم سب خاموشی سے بیٹھے رہے۔

چلیں تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں جہاں فریال آپا کا ذکرِ خیر رہا تھا۔ فریال آپا کی اور میری سوشل میڈیا کی بدولت بات چیت چل رہی تھی کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ دُوسری طرف ہماری لبنیٰ آپا نے بھی ایک پوسٹ بنا شیئر کردی کہ وہ کوسٹر پر ہیں اور کہیں سیر کے لیے جا رہی ہیں۔ ناشتے کے بعد جب ہماری کوسٹر جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرنے لگی تو میں نے سب کی ایک گروپ فوٹو بنا کر شیئر دی۔ جیسے فریال آپا کو ہماری ہی کسی اپ ڈیٹ کا انتظار تھا۔ فریال آپا فوراً تصویر پر بول پڑیں کہ پہلے میں الگ سے کہیں جا رہا تھا اور لبنیٰ کہیں اور۔ اب میں لبنیٰ اور باقی لاہوریوں کے ساتھ کیا کر رہا ہوں؟

اب واپس اپنی کوسٹر میں چلتے ہیں جہاں رانا عثمان نے یہ کہہ کر گاڑی رکوا دی تھی کہ وہ آگے کا راستہ پوچھ کر آتے ہیں۔ ہماری کوسٹر کے دروازے کے پاس ہی ایک کالی گاڑی آ کر رکی جس کا ہم میں سے کسی نے بھی نوٹس نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ہم سب اپنی اپنی مستیوں میں گُم تھے۔ اچانک ہماری کوسٹر کا دروازہ کھلا اور فریال آپا آنکھوں پر چشمہ لگائے ہوئے بولیں ''ہیلو ایری ون'' اور ہم سب خوش گوار حیرت سے انھیں تکنے لگے۔

ہوا اصل میں کچھ یوں تھا کہ رانا عثمان نے فریال آپا کو بھی قلعہ رام کوٹ جانے کے لیے پوچھ لیا۔ فریال آپا جو ان دنوں راولپنڈی میں ہی مقیم تھیں، نے ہم سب کو سرپرائز دینے کا سوچا اور صبح سویرے بھاگتے ہوئے اپنے ڈرائیور کے ہمراہ راولپنڈی سے منگلہ پہنچ گئیں۔

منگلہ ڈیم پر پہنچے تو تقریباً میرا رنگ اڑ چکا تھا کیوںکہ مجھے بلندی اور پانی دونوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ہم نے تقریباً ایک گھنٹے کا سفر ایک بڑی سی کشتی پر کرنا ہے اور یہی کشتی ہمیں قلعہ رام کوٹ پہنچائے گی۔ کشتی میں داخل ہونے سے پہلے لائف جیکٹس پہنا دی گئیں جنھیں میرے اور ماجد بھائی کے علاوہ کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سب نے وقتی طور پر وہ جیکٹس پہن تو لیں مگر کشتی کا سفر شروع ہوئے ابھی فقط پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ سب نے وہ جیکٹس اتار دیں کیوںکہ صاف نظر آرہا تھا کہ جیکٹس صرف فرضی کارروائی تھیں۔

کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ جیکٹس ناکارہ تھیں۔ ہماری کشتی دو منزلہ تھی۔ مجھ سمیت تقریباً سارے ہی نام نہاد اور ڈرپوک مرد کشتی کی نچلی منزل پر تھے جب کہ گروپ کی اکثریتی خواتین کشتی کی بالائی منزل پر تھیں۔ پانی کے دل فریب نظارے اصل میں کشتی کی بالائی منزل سے ہی دیکھے جا سکتے تھے۔ نچلی منزل والے ان تمام خوب صورت نظاروں سے تقریباً محروم ہی تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا ڈر کچھ کم ہوا تو میں نے بھی اپنی گردن کشتی سے ذرا باہر نکالی۔ زمین کہیں دور اور بہت دور رہ گئی تھی۔ ہمارے اطراف اب صرف پانی ہی تھا۔ سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ دریائے جہلم کے پانیوں پر چمک رہا تھا۔ کبھی کبھی پرندوں کی ٹولیاں پانی پر سے گزرتیں تو مناظر مزید دل فریب ہوجاتے۔ کم و بیش ایک گھنٹے کے بعد قلعہ رام کوٹ کی فصیلیں نظر آنے لگیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد کشتی بان نے کشتی ایک فصیل کے ساتھ روک دی۔

رام کوٹ کا شمار پوٹھوہار کے قدیم قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعے کی تعمیر 1186ء میں غوری سلاطین کے عہد میں سلطان غیاث الدین نے کی تھی۔ قلعے کے چبوترے سے 440 سیڑھیاں آپ کو رام کوٹ کے مرکزی دروازے تک لے جاتی ہیں۔ اگر ڈیم بھرا ہوا ہو تو سیڑھیاں کم ہوجاتی ہیں۔ مرکزی دروازہ ڈھلوانی چٹان پر بنایا گیا ہے تاکہ کسی بیرونی حملے کی صورت میں یہاں تک رسائی مشکل ہو۔ قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی سامنے کی جانب دو بڑے تالاب نظر آتے ہیں جو یقینی طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

منگلا ڈیم بنیادی طور پر دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے سنگم پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی دروازے کے بائیں جانب تھوڑی اونچائی پر ایک مندر بھی بنا ہوا ہے۔ مندر میں شیولنگ ابھی تک موجود ہے۔ روایات کے مطابق یہ شیو لنگ دریائے گنگا سے لایا گیا تھا۔

وہ دن جس دن ہم رام کوٹ گئے، بہت سے خاص دنوں میں سے ایک خاص تھا۔ کیا نہیں تھا اس دن میں۔ سکون، خوشی، خوب صورت یادیں۔ قلعے میں داخل ہونے کی دیر تھی کہ سب لوگ بکھر گئے۔ ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی جگہ چلا گیا۔ کوئی قلعے کی فصیل پر لگی توپ کے ساتھ تصویر بنانے لگا تو کسی کو قلعے کے پیچھے بنے جزائر نے اپنی جانب کھینچا۔ عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ شام اترنے سے پہلے پہلے نہ صرف قلعہ چھوڑ دیا جائے بلکہ ہم ڈیم کی حدود سے بھی باہر نکل جائیں۔ کشتی پر واپسی کا سفر بالکل خاموش تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر ایک اداسی تھی جسے منگلہ کے پانیوں پر اترتی شام مزید عریاں کر رہی تھی۔ ہماری روحیں شاید آج بھی وہی ہیں اور ہمارے جسم اس صوتی آلودگی سے بھرپور دنیا میں کھو چکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں