بہار وحدت اسلام کی ضرورت

اسلام دین فطرت ہے اس کا ہر اصول بے مثال، اپنی مثال آپ، لاجواب و لازوال ہے۔۔۔۔


[email protected]

اسلام دین فطرت ہے اس کا ہر اصول بے مثال، اپنی مثال آپ، لاجواب و لازوال ہے۔ اس کا کسی خاندان، ذات، قبیلے یا نسل سے کوئی واسطہ اور رابطہ نہیں، وہ تو ایک اصول، نظریہ اور نظام حیات کا نام ہے۔ ہر وہ فرد جو اللہ کو اپنا رب، محمدؐ کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین تسلیم کرنے پر راضی اور مطمئن ہو جائے، وہ مسلم کہلانے میں حق بجانب ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی نسل، رنگ، ذات، خاندان، زبان یا خطہ زمین سے ہو۔ اس طرح اسلام نے رنگ، نسل، زبان، وطن، معیشت اور سیاست کی بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کی بجائے خالص روحانی، جوہری اور نظریاتی بنیادوں کی نئی سمت اور نئی نہج پر قومیت کی تعمیر و تشکیل کی اور اسے جداگانہ تشخص دینے کے لیے ملت کے منفرد اور امتیازی نام سے تعبیر کیا اور عشق بتاں کو نہیں، عشق یزداں کو قومیت کی اصل قرار دیا۔ بقول اقبال:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جس کا سرچشمہ لاالہ الا اللہ ہے۔ وہ مغرب کے تصور قومیت سے کیفیت، کمیت اور خصوصیت ہر لحاظ سے منفرد اور جدا ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے نظریہ کو قومیت کی اساس قرار دے کر روئے زمین کے تمام خطوں میں بکھری ہوئی نوع انسانی کی بے شمار نسلوں اور قوموں کو مجتمع کر کے وحدت کی لڑی میں پرویا اور ایک امت واحدہ بنا دیا۔ اس نے قومیت کے پیراہن کو مذہب کے تانے بانے سے تیار کیا۔ وحدت نسل انسانی کا تصور اسلام کی روح رواں، جوہر ِاصلی اور مشکِ نافہ ہے۔ اسلام انسان کو علم و آگہی عطا کرتا ہے کہ تمام انسانوں کی اصل اور نسل ایک ہے۔ وہ ایک دوسرے کا خون اور گوشت و پوست ہیں، کیونکہ وہ پہلا انسان جس نے دھرتی کی پیشانی پر قدم رکھا آدم علیہ السلام تھے۔ تمام انسانوں کا شجرہ ان ہی سے چلا ہے۔ ایک ہی ماں باپ کی سب اولاد ہیں۔ اس لیے تمام انسان صاحبِ عز و شرف ہیں۔ شرافت اور کرامت ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ نجیب الطرفین ہونے کی وجہ سے اسلام میں سب انسان قابل صد احترام ہیں۔

اسلام خاندانوں، قبیلوں اور خطوں کی فطری ترتیب و تقسیم کا قائل ہے اور ان کا مقصد باہمی تعارف وتعاون، اتحاد و اتفاق اور حمد و تالیف قرار دیتا ہے۔ انسان بحیثیت ایک نوع بھی وحدت ہے اور اس انداز فکر کی قطعاً گنجائش نہیں بلکہ یہ انسان کے دل و دماغ پرخناس کا اثر ہے کہ لسانی، نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات کے چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچ کرانسانوں کے درمیان مخالفت، مزاحمت، عداوت اور نفرت کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔ جو ان دیواروں کے دروں ہو وہ اپنا جو بروں ہو وہ غیر قرار پائے۔ اس طرح تنافر اور تفاخر کے بیج بو کر خون انسان سے اسے سینچ کر مادی اور جسمی مفادات کی فصلیں تیار کی جائیں۔ ہدف تحقیر بنا کر غیروں کو تسخیر کیا جائے۔ کمتری اور برتری کے پیمانے وضع کیے جائیں۔ تعصب کی دوربین آنکھوں پر لگا کر آگ و خون میں چیختی، سسکتی، دم توڑتی بہتی ہوئی انسانی نعشوں کے مناظر دیکھ کر جام سرور نوش کیا جائے۔

انسان کی فرمانبرداری، وفاداری اور جانثاری کے مستحق خداؤں میں سب سے زیادہ چلن آج وطن کا ہے، خاندانی، نسلی، قبائلی، لسانی، معاشی اور سیاسی خداؤں کی بہ نسبت وطنی خدا کا کاروبار زوروں پر ہے اس کے بازاروں میں بڑی چہل پہل اور رونق ہے۔ اس کے ہاتھوں افراد کی جانوں اور مالوں کی فروخت کے عہد و پیمان باندھے جا رہے ہیں۔ عصبیت میں ڈوبے ہوئے فقرے زبان زد خاص و عام ہوتے جا رہے ہیں۔ وحدت کو پارہ پارہ کر کے باطل عصبیت کو جنم دے کر انسانیت کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ وطنی معبود کی عبادت کثرت سے جاری ہے کیا یہ اس بات کی خطرے کی گھنٹی نہیں کہ دو عالمی جنگوں کے بعد تیسری کی تیاری ہے۔ قوم پرستی اور وطن پرستی کے مشرکانہ جذبے کو ہوا دینا، عصبیت، نفرت اور ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ امن و سلامتی کے پیروں پر کلہاڑی مارنا اور شاخ نازک پر آشیانہ بنانا ہے۔ اپنے ہی خنجر سے خودکشی اور نسل کشی کرنا ہے۔

وطن پرستی اور قوم پرستی کی فکر گستاخ کی بے تاب بجلیوں سے آج پورا عالم انسانیت خطرے میں ہے اس کے مفر کی ایک ہی صورت ہے کہ نظریاتی قومیت کو وحدت اور سیاسی مرکزیت کے لیے ایک بنیادی عامل صدق دل سے تسلیم کرنا اور رائے عامہ کا وحدت الٰہ اور وحدت آدم کے تصور پر متفق علیہ ہونا، ایک خدا، ایک قانون، ایک مرکز اور ایک ہی آدم کے مشترک گھرانے کا اپنے آپ کو باعزت فرد سمجھنا۔ جس کا اسلام داعی ہے۔ اس بنیاد پر ایک عالمی ریاست کی عمارت کی تعمیر کی صورت نکل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سب تدبیریں الٹی ہو جائیں گی، نہ دعا سے کام چلے گا نہ دوا سے۔ مرض بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر انسانی ذہن وحدت الٰہ اور وحدت آدمؑ کی قدر مشترک پر متفق نہ ہوں گے۔

اسلام انسان سے خطاب کرتا ہے کہ ''تم کدھر جا رہے ہو؟ آنکھوں والو! عبرت پکڑو''۔ وحدت الٰہ اور وحدت آدمؑ کی حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرو۔ آواز فرات کو سنو اور عمل کرو۔ غیر عقل اور غیر فطری آواز جو بظاہر سریلی ہے لیکن باطن میں زہریلی ہے اس کے پیچھے جانوروں کی طرح مت بھاگو۔ خناس سجائے ہوئے نقوش کہن کو نیتوں، ارادوں، دلوں اور دماغوں سے کھرچ کھرچ کر مٹا دو۔ اس میں انسانیت کی عافیت ہے اور حقیقی شادمانی کی ضمانت ہے۔ وحدت الٰہ اور وحدت آدم اسلام کا ساز بھی ہے اور آواز بھی۔ بیان بھی ہے اور زبان بھی۔ اس سلسلے میں اللہ کا یہ فرمان بہ زبان قرآن اظہر من الشمس ہے۔

''لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تا کہ ایک دوسرے کی شناخت کر سکو تم میں سب سے زیادہ باعزت اور فضیلت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے''۔ (سورۃ الحجرات: آیت۔13)

فرمان نبویؐ ہے کہ ''میں تمہیں بتاؤں کے روزے، نماز اور خیرات سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔''

بہار وحدت اسلام کو خزاں میں بدلنے والے اپنی ذمے داری کے بارے میں رب کعبہ کے حضور کیا جواب دیں گے۔ بقول شاعر:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

وحدت کو کثرت میں بدلنے والوں سے اور کوئی نسلی، لسانی، قومی اور وطنی امتیازات کی دیواروں کو انسانوں کے درمیان کھڑی کرنے والوں سے رب الناس، ملک الناس اور الٰہ الناس کو سخت نفرت ہے کیونکہ اس میں اس کے عیال کی تباہی اور بربادی کے مہلک اثرات پنہاں ہیں اسی لیے جو افراد شیطانی چکر، نفسانی خواہشات اور دشمنان اسلام کے مصاحب کے دام سے تا دم مرگ بچے رہتے ہیں۔ وحدت کی زبان اور اخوت کا بیان کر کے ملت میں گم رہتے ہیں۔ ان کو موت آتی ہے تو اسی حال میں کہ وہ سچے مومن ہوتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد ربانی ہے کہ ''یہ چیز نصیبے والے کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی''۔ (حٰم، السجدہ:آیت۔35)

اللہ کی رضا اور خوشنودی خریدنے کے لیے ایمان اور اخلاص کے ساتھ وحدت ملت کے قیام، بقا اور استحکام کے لیے کام کرے اور اس کی محنت، خلوص اور لگن کو اللہ رب العزت شرف قبولیت عطا فرما دے تو یہ...

بڑے کرم کے ہیں فیصلہ
بڑے نصیب کی بات ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔