طالبان سے مذاکرات پر امریکا کو اعتراض نہیںنواز شریفآرمی چیف کی ملاقات مذاکراتی عمل پر تبادلہ خیال

دعاہے مذاکرات کامیابی سے آگے بڑھیں،بلوچستان میں روٹھے لوگوں سے بھی بات کرینگے،آئین توڑنے والے کوکیسے چھوڑاجا سکتاہے


اسلام آباد:وزیراعظم میاں نوازشریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف ملاقات کر رہے ہیں ۔ فوٹو : آئی این پی

لاہور: وزیراعظم نوازشریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی ہے جس میں طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکراتی عمل کے امورپر بھی گفتگواور مشاورت کی گئی جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ ملک کوخوں ریزی سے بچانے کیلیے مذاکرات کاراستہ اختیارکیاہے۔

امریکی صدرباراک اوباماسمیت کسی کو طالبان سے مذکرات پرکوئی اعتراض نہیں۔طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لیے سامنے آنیوالے سب نام اچھے ہیں اور ان کی قدرکرتے ہیں۔ خواہش اوردعا ہے کہ یہ عمل کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے۔ بلوچستان میں اس حوالے سے وزیراعلیٰ سے بات ہوئی ہے اورانھیں کہاہے کہ بات چیت کے لیے آگے بڑھیں۔ وہاں بھی روٹھے ہوئے لوگ ہمارے اپنے ہیں۔ ملک کے اندراور باہرموجود تمام لوگوں سے بات کریں گے۔ ضرورت پڑی تومیں بھی اس میں معاونت کروںگا۔ وہ پیرکو الحمراآرٹس کونسل میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگوکررہے تھے۔ ملاقات کااہتمام الحمراآرٹس کونسل کے چیئرمین عطاالحق قاسمی نے کیا تھاجس میں وزیراعظم نے صحافیوں کو طالبان سے مذاکرات سمیت ملک کودرپیش دیگرچیلنجز اوران کے حل کے لیے کیے گئے اقدام کے حوالے سے آگاہ کیا۔ نوازشریف نے بتایاکہ ملک کودہشت گردی اورمعاشی بدحالی جیسے چیلنجزکا سامناہے اور معیشت کی بحالی کے لیے امن ناگزیرہے۔

اگرملک میں مذاکرات سے امن قائم ہوجائے تواس سے بہتراور کچھ نہیں۔ حکومت کی جانب سے پوری سنجیدگی اورنیک نیتی سے مذاکرات کی کوشش کی جارہی ہے۔ پوری قوم کی نظریں مذاکرات کی کامیابی پرہیں۔ انھیں امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ انھوں نے کہاکہ مذاکرات ہی پاکستان کیلیے بہترین آپشن ہے جس کے ذریعے ہم خونریزی سے بچ سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ قصہ خوانی سنیمابم دھماکے میں بغیر ثبوت بھارت کے ملوث ہونے کامزید الزام نہیں لگانا چاہیے۔ انھوں نے بتایاکہ امریکاکوطالبان سے مذکرات کے بارے میں آگاہ کیاتھا۔ امریکی صدراوباما سمیت کسی شخص کومذاکرات پرکوئی اعتراض نہیں۔ ماضی میں سنگین غلطیاں کرچکے ہیں۔ انھیں نہیں دہرانا چاہیے۔ اب توافغانستان کے صدر حامدکرزئی بھی امن کونسل کے ذریعے افغان طالبان سے مذاکرات کرناچاہتے ہیں۔ نوازشریف کاکہنا تھاکہ پاکستان اوربھارت کوایک دوسرے کے ساتھ حق کی بات کرنی چاہیے۔ اس سے ہی رکاوٹیں دور ہوںگی۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت اور آمدورفت بھی ہونی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ ملک سنگین بحرانوں میں گھراہواہے۔



توانائی کابحران اگرحکومت نے 5سال میں بھی ختم کرلیا تویہ بہت بڑاکارنامہ ہوگا۔ معیشت کی حالت پرسابق حکومت کوہدف تنقیدنہیں بناناچاہتالیکن ورثے میں جو کچھ ملاوہ سب کے سامنے ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ترقیاتی کاموں پر کیاخرچ کریں، یہاں تو قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقوم نہیں ہیں۔ کچھ اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے۔ پی آئی اے کے 26فیصد شیئرزکی نجکاری کی جائے گی اورمینجمنٹ تبدیل ہوگی جبکہ پرانے ملازمین کوگولڈن ہینڈشیک دیاجائے گا۔ پرویزمشرف کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہاکہ ملک کاقانون سب کے لیے ایک ہے۔ آئین توڑنے والے کوکیسے چھوڑاجا سکتاہے۔ جومعمولی جرم کرے وہ جیل جائے، آئین توڑنے والاآزاد گھومے، یہ کیسے ممکن ہے۔ انھوں نے کہاکہ ماضی میں بنائی جانے والی پالیسیوں نے ملک کونقصان پہنچایااورآج ہم غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی وہ بذات خود وزیرداخلہ کے ساتھ مل کرنگرانی کررہے ہیں۔ خواہش ہے کہ یہ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ہم چاہتے ہیںکہ بیرونی اور اندرونی معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔

خطے میں پائیدارامن کیلیے بھارت، افغانستان سمیت دیگرممالک کے ساتھ حل طلب معاملات کومل بیٹھ کرحل کرناچاہتے ہیں۔ آن لائن کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ اگراسٹیل ملزپہلے پرائیویٹائز ہوجاتی توشاید اس کی بہترقیمت لگ جاتی لیکن اب بھی اس پر سوچ بچارجاری ہے۔ حکومت کی سب سے پہلی ترجیح ملک میں لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہے۔ اس کے بعدقیمتوں میں کمی کے حوالے سے غورکریںگے۔ ڈی جی ایم اوزکی ملاقات کے بعدسرحد پرجاری جھڑپوں میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے اوریہ ایک اچھاقدم ہے۔

دریں اثنا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پیرکی شام وزیراعظم نوازشریف سے انتہائی اہم ملاقات کی۔ شام 6بج کر 30منٹ پر وزیراعظم ہاؤس اسلام آبادمیں شروع ہونے والی یہ ملاقات 6بج کر 55منٹ پراختتام پذیرہوئی جس میں سیکیورٹی کی مجموعی صورت حال، تحریک طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ہونیوالی پیش رفت اورممکنہ مذاکرات میں زیربحث آنیوالے نکات کے علاوہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل(ر) پرویزمشرف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیاگیا۔ دونوں رہنماؤں کی اس اہم ملاقات کے بعدرات تقریباً پونے 10بجے سابق آرمی چیف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل ہوئی۔ اس سے قبل اسلام آباد پولیس اورراولپنڈی پولیس کے افسران کوآرمڈ فورسزانسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میںاس تعمیل کے لیے تقریباً 3گھنٹے طویل انتظار کرنا پڑا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔