مضبوط خوشحال اور جمہوری پاکستان دنیا کیلیے اہم ہے امریکا

پاکستان کے ساتھ ’دیرینہ تعلقات‘ ،بائیڈن جلد عمران خان کو فون کر سکتے ہیں، امریکی نائب وزیر خارجہ


طالبان کو فی الحال تسلیم نہیں کر رہے،دیکھنا ہے کس طرح آگے بڑھتے ہیں،وینڈی شرمن ۔ فوٹو : فائل

نائب امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمن کا بھارت میں پاکستان سے متعلق لہجہ سخت جب کہ اسلام آباد پہنچتے ہی نرم ہو گیا۔

پاکستان کے دورے پر آئی ہوئیں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ 'دیرینہ تعلقات' ہیں ، جس میں وسیع تر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے،پاکستان آنے سے قبل بھارت میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ 'مخصوص اور محدود' مقصد کے لیے اسلام آباد کا دورہ کر رہی ہیں اور امریکہ پاکستان کے ساتھ 'وسیع تر تعلقات' کا خواہاں نہیں ہے،رواں سال جنوری میں وائٹ ہاؤس کے صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی اعلیٰ امریکی سفارتکار وینڈی شرمن نے یہ بھی اشارہ دیا کہ صدر بائیڈن جلد ہی وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات آگے نہیں بڑھ رہے کیونکہ افغان انخلا کے بعد امریکی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں،امریکی انتظامیہ میں بھی ایک نظریہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار ہے حالانکہ اسلام آباد کا اصرار ہے کہ اسے دوسرے کی ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا۔

تاہم نائب امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کو اہم سمجھا گیا کیونکہ یہ مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گا۔وینڈی شرمین نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے ملاقاتیں کیں،وزیر خارجہ نے ملاقات میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ اور منظم ڈائیلاگ کا عمل ہمارے دوطرفہ مفاد کے ساتھ ساتھ مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔

امریکی نائب وزیر خارجہ نے بلوچستان زلزلے میں جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا،اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیا مسٹر ڈونلڈ لو بھی ان کے ہمراہ تھے،مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ دنیا کو طالبان کی عبوری حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے،عالمی برادری کو افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے رابطے قائم کرنے چاہئیں۔ اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر امریکی سفارتخانے میں میڈیا اور پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ مضبوط، خوشحال اور جمہوری پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کے ساتھ مفید اشتراک رہا، آئندہ بھی رہے گا،امریکہ فی الحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا، ہمیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، امریکہ اس سلسلے میں روس اور چین سمیت پوری دنیا کے ساتھ وسیع مشاورت کر رہا ہے، ہم کابل میں ایک جامع حکومت کے متلاشی ہیں، ہم طالبان کے الفاظ نہیں بلکہ ان کے اعمال پر فیصلہ کریں گے، اگرچہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن ختم ہوچکا ہے ، لیکن افغان عوام کے ساتھ ہمارا عزم ختم نہیں ہوا۔

ہمیں افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر انتہائی تشویش ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان کئی دہائیوں سے بہترین تعلقات قائم ہیں، امریکہ چاہتا ہے افغانستان ترقی کرے، افغانستان میں حالات کی بہتری کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے، پاکستان کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ہم کسی کی ترقی میں رکاوٹ نہیں چاہتے۔ انسانی امداد تک بلاتعطل رسائی کے لیے طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے، افغانستان کو دوبارہ دہشتگردی کا مرکز بننے، امریکا اور اتحادیوں پر حملوں سے روکنا ہو گا،ایک متحرک میڈیا آزاد معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔

پاکستان کا دورہ دوطرفہ دیرپا تعلقات کے تناظر اور افغان صورتحال کے بارے میں ہے، افغانستان کی صورتحال اور طالبان سے توقعات، امریکا، پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے اہم ہیں، طالبان نے آزاد نقل و حمل، خواتین، بچوں، اقلیتوں سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کا وعدہ کیا، طالبان کے تمام وعدے تاحال عوامی توقعات کے برعکس پورے نہیں ہوئے، پاکستان کو کورونا ویکسین کی مزید 96 لاکھ خوراک فراہم کی جائیں گی، خطے میں موسمیاتی تغیر، شفاف توانائی، اقتصادیات اور علاقائی ربط پر معاونت کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔