قائد اعظم کی زندگی کا آخری دور

نوزائیدہ قوم ہول ناک بحران میں محض اس لیے سلامت رہی کہ قائد اعظم امور مملکت کے نگراں تھے


Khuwaja Razi Hyder September 11, 2012
قائد اعظم نے حتیٰ المقدور عہدہ برا ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ فوٹو: فائل

قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے دوران تقریباً 44سال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقی، خوش حالی، سیاسی بالادستی اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

اس عرصے میں اگرچہ ان کو بعض مراحل پر اپنوں اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابل تسخیر سیاسی کردار نے 1937ء میں یہ بات طے کردی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے وہی قائد اعظم ہیں۔ قائد اعظم کی ان ہی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے جون 1937ء میں قائد اعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا،''اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ راہ نمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔''

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے قائد اعظم محمد علی جناح نے تدبر، فراست ، غیر متزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کردیا اور سات سال کی مختصر مدت میں مطالبۂ پاکستان کی ایسی وکالت کی کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

برصغیر مین ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو اسلامیان ہند گذشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے 14اگست 1947ء کو شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر ایک فرد واحد کی چشمِ کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی اور وہ فرد واحد قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔

1948ء بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تندہی سے گزاری، مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال، جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی، نہایت ہنگامہ خیز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے، چناں چہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی۔

پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا، ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام، تعلیمی نظام موثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کرنا، بلکہ ان کو یہ باور کرانا کہ قوم ان سے کیا توقعات رکھتی ہے۔

ان تمام امور سے قائد اعظم نے حتیٰ المقدور عہدہ برا ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ بقول پروفیسر شریف المجاہد، ''تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے، تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحران میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائد اعظم امور مملکت کے نگراں تھے۔

پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائد اعظم نے اسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ اسے تباہیوں، بربادیوں اور ہول ناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا اور آزادی نے عوام کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو ابھارا تھا ان کا رخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔

1948ء میں 25مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورہ پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں، مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 29 جون کو آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے، مگر آپ کی علالت اتنی سنگین صورت اختیار کرگئی تھی کہ ڈاکٹروں نے فوری طور پر زیارت منتقل کردیا، جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد مقام ہے۔

زیارت میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور آپ اکثر و بیشتر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور اپنے عملے کے ارکان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کرنے لگے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے، جو اس وقت قائد اعظم کے معالج تھے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے، ''جب میں 17جولائی کو قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسہری پر دراز تھے۔ جسم نحیف اور کم زور، لیکن چہرہ باوقار اور پُرجلال، آنکھوں میں بَلا کی چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ، وہ بہت کم زور ہوگئے تھے۔

رخسار کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ بیماری کی وجہ سے رنگ اور زیادہ نکھر آیا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایک شاعر یا فلسفی کی طرح چہرے کی جھریاں ان کے گہرے مطالعے اور تدبر کی باریکیوں کو نمایاں کررہی تھیں۔ بیماری کے باوجود وہ روزانہ صبح شیو بنواتے اور صبح ساڑھے چھے بجے چائے پیتے۔ ہم نے اصرار کیا کہ اگر آپ سورہے ہوں تو بہتر ہے کہ آپ کو نہ اٹھایا جائے کیوں کہ آپ کے لیے آرام اور نیند اشد ضروری ہے۔ قائد اعظم جواباً مسکرادیے اور فرمانے لگے، صحت کے لیے زندگی بھر کے اصول ترک نہیں کیے جاسکتے۔''

زیارت میں قائد اعظم کے قیام اور بیماری کے بارے میں آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ''مائی برادر'' میں خاصی تفصیلات درج کی ہیں، جو بہت اہم اور معلومات افزاء ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اور قائد اعظم کی محبت مثالی تھی۔ انھوں نے 1929ء میں قائد اعظم کی اہلیہ محترمہ رتن بائی کے انتقال کے بعد سے قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہ ہمہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں، حتیٰ کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر دخیل تھیں کہ قائد اعظم ان سے سیاسی و انتظامی مسائل پر تبادلۂ خیال بھی کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے ایک تقریب میں محترمہ فاطمہ جناح پر اپنے مکمل اعتماد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ''وہ میرے لیے اس وقت امید، ہمت اور معاونت کا ایک مستقل ذریعہ ثابت ہوئیں، جب ہم ایک بڑے انقلاب سے ہم کنار ہورہے تھے۔'' زیارت میں محترمہ فاطمہ جناح پورے انہماک سے قائد اعظم کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔ اس دوران انھوں نے کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔

قائد اعظم کی طبیعت میں کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ قیام پاکستان کی پہلی سال گرہ قریب تھی، لیکن قائد اعظم اپنی علالت کے سبب سالگرہ کی تقریبات میں شرکت سے معذور تھے۔ اس موقع پر آپ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا، ''پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ دنیا کی ایک عظیم ترین مسلمان ریاست ہے۔ اس کو سال بہ سال ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہے اور ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے، ہم کو ایمان داری، مستعدی اور بے غرضی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا ہوگی۔''

زیارت میں قیام کے دوران قائد اعظم کا بلڈ پریشر خاصا گرگیا تھا اور پیروں پر ورم آگیا تھا، چناں چہ آپ کو ڈاکٹروں کے مشورے پر زیارت سے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ قائد اعظم کے ایک اور معالج کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب With the Quaid-i-Azam During His Last Days میں لکھا ہے، ''پانچ ہفتے کی تسلی بخش صحت کے بعد 3 ستمبر کو آپ کی حرارت بڑھ گئی ۔ حرارت کا یوں اچانک بڑھ جانا بہت تشویش ناک تھا۔ چناںچہ ہم نے بڑی احتیاط سے ان کا معائنہ کیا، لیکن پھر بھی بخار کا سبب دریافت نہ کرسکے۔''

9 ستمبر کو کرنل الٰہی بخش نے معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا، مگر محترمہ فاطمہ جناح نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور برابر طبیعت کی بحالی کی آرزو مند رہیں۔ 10ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورے پر محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو کراچی لے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ چناں چہ 11ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماری پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔

قائد اعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹاکر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہائوس پہنچایا گیا۔ رات تقریباً ساڑھے نو بجے آپ کی طبیعت اچانک بگڑگئی۔ چند منٹ کے اندر کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری گورنر جنرل ہائوس پہنچ گئے۔ اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیرمسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انجکشن لگایا، مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ رات دس بج کر 25 منٹ پر فخر قوم، بطل جلیل، اسلامیان پاکستان کا ناخدا، عزم و استقلال فراست اور ذہانت کا پیکر ہمیشہ کے لیے اﷲ کی رحمت میں پہنچ گیا۔

قائد اعظم کی خبر ذرا سی دیر میں پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص اس عظیم سانحے اور حادثے پر رنجیدہ اور افسردہ تھا۔ روتے ہوئے لوگوں کے گروہ اور بال نوچتی ہوئی عورتوں کا سیلاب دیوانہ وار گورنر جنرل ہائوس کی طرف بڑھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد گورنر ہائوس کے اطراف جمع ہوگئے۔ نیشنل کالج کے پروفیسر مکرم علی خان شیروانی نے جو قائد اعظم کے انتقال کے وقت کالج کے طالب علم تھے ایک ملاقات میں 11ستمبر کی رات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا، ''اس رات میرے والد میرپورخاص جارہے تھے۔

بولٹن مارکیٹ کے قریب اندرون سندھ جانے والی بسوں کا اڈّا واقع تھا۔ میں ان کو چھوڑنے بس کے اڈے پر گیا تھا، مگر بس نہ آنے کی وجہ سے خاصی تاخیر ہوگئی۔ تقریباً گیارہ بجے ایک شخص بس کا انتظار کرنے والے ہجوم کی طرف آیا اور بڑی غم زدہ آواز میں ہجوم کو اطلاع دی کہ قائد اعظم کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ خبر ہم سب کے لیے بڑی دل دوز تھی، مگر اس سے قبل کہ ہم اس سے مزید تفصیل معلوم کرتے ہم میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس اجنبی کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا، کیا بَکتا ہے۔

ایک لمحہ کے لیے وہ اجنبی حیران رہ گیا، پھر اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ اس نے طمانچہ مارنے والے کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اور اپنا دوسرا گال اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، بھائی! اس پر بھی طمانچہ مارلو اور مجھے یقین دلادو کہ قائد اعظم زندہ ہیں۔''

قائداعظم بلاشبہہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصر حاضر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سروجنی نائیڈو جناح عصر حاضر کی سب سے سربرآوردہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائداعظم کی شخصیت اپنے سیاسی کردار کے آئینے میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم شخصیت ہے ۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا ابلاغ یقیناً ناممکن ہے۔

اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تندہی سے گزاری، مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال، جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی، نہایت ہنگامہ خیز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے، چناں چہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی۔

1948ء میں 25مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورہ پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں، مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں