ضرورت ہے ایک ہزار اتاترکوں کی
پاکستان میں اس وقت تحریک خلافت کے نام سے بھی ایک تحریک چل رہی ہے۔ اب ایک نیام میں دو تلواریں تو نہیں سما سکتیں
کب کا بھولا ہوا مصرعہ ہمیں کب یاد آیا ہے ع
پسلی پھڑک اٹھی نگۂ انتخاب کی
بس اسی طرح جس طرح جاوید جبار صاحب کو ہمارا بھولا ہوا ایک ہیرو یاد آ گیا۔ ابھی ہم اخبار میں پڑھ رہے تھے کہ انھوں نے آغا خاں یونیورسٹی کے کسی پروگرام کے ذیل میں ایک لیکچر دیا ہے۔ موضوع تھا 'بیمار ریاست'۔ انھوں نے اس عام غلط فہمی کی تردید کی کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے کہا کہ ہم ناکام ریاست نہیں' البتہ ہم ایک بیمار ریاست ہیں۔ بیمار ریاست کے حوالے سے انھیں ترکی کا وہ دور یاد آنا ہی تھا جب ظالموں نے ترکی کو مردِ بیمار کہنا شروع کر دیا تھا۔ پھر اس مردِ بیمار کو اتاترک ایسا معالج یا کہہ لیجیے کہ مسیحا مل گیا۔ اس مسیحا کی قیادت میں یہ مرد بیمار مرتے مرتے جی اٹھا اور اس شان سے کہ یورش کرتی ہوئی یورپی طاقتوں کو پیچھے دھکیلا اور اب ترکی نے صحت مند ہو کر پہلا کام یہ کیا کہ خلافت کا باب بند کیا اور نئی جون لے کر اپنا سفر شروع کیا۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کمال اتاترک نے ایک ہیرو کا مقام حاصل کر لیا تھا۔ شاید لاہور کے کشمیری دروازے میں اب بھی کوئی ایسا پرانا کیلنڈر نظر آ جائے جس میں غازی مصطفے کمال اتاترک گھوڑے پر سوار ہیں۔ ایک ہاتھ میں تلوار۔ دوسرے ہاتھ میں وہ پرچم جس کی تفسیر علامہ اقبالؔ نے یوں کی تھی ع
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
کیسے نازک وقت میں جاوید جبار صاحب کو کمال اتاترک کی یاد آئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ وہ اتاترک کو یاد کرتے ہوئے یہ بھی یاد رکھتے کہ پاکستان میں اس وقت تحریک خلافت کے نام سے بھی ایک تحریک چل رہی ہے۔ اب ایک نیام میں دو تلواریں تو نہیں سما سکتیں۔
پھر جاوید جبار صاحب نے اتاترک کو یاد کرتے ہوئے ایک پخ اور لگا دی ہے۔ بتایا کہ ایک اتاترک سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان کو اس وقت ایک ہزار اتاترکوں کی ضرورت ہے۔ جاوید جبار صاحب نے یہ تو ہمارے لیے بہت مشکل پیدا کر دی۔ جہاں تک ایک اتاترک کا معاملہ ہے تو ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ترکی میں جو نئی قیادت ابھر کر آئی ہے اس موڈ میں نظر آ رہی ہے کہ اتاترک کے سائے تلے ہم نے بہت وقت گزار لیا۔ بہتر ہے کہ اب انھیں فارغ کر دیا جائے۔ ایسا ہوا تو ہمیں اصلی اتاترک میسر آ جائے گا' کسی نئے اتاترک کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ایسا انتظار کتنا طول پکڑتا ہے؎
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم میں سے جنہوں نے فرانس کا وہ ایبزرڈ ڈرامہ پڑھا ہے جس کا عنوان تھا۔ 'ویٹنگ فار گوڈو'۔ یعنی گوڈو کے انتظار میں تو جنہوں نے وہ ڈرامہ پڑھا ہے جو جانتے ہیں کہ گوڈو تو کسی صورت نمودار ہی نہیں ہوا۔ بس اس انتظار سے ایک ایبزرڈ ڈرامہ یاد گار ہے۔ لایعنیت کا شاہکار فرانسیسی ڈرامہ۔
ابھی ہم اس ڈرامے کے حوالے سے سوچ رہے تھے کہ ہمیں اپنے شاعر کا یہ مشہور و مقبول شعر یاد آ گیا؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اگر دیدہ ور آسانی سے پیدا ہو جایا کرتے تو غالبؔ کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
لگتا ہے کہ جاوید جبار صاحب نے نہ اقبال پڑھا ہے نہ غالبؔ کے ایسے شعروں پر کبھی دھیان دیا ہے۔ کس بے تکلفی سے نسخہ تجویز کر دیا کہ ہمیں اس وقت ایک ہزار اتاترکوں کی ضرورت ہے۔ ارے یہاں ہم نے کتنے تیز رووں کے پیچھے ہزار ہزار قدم چل کر دیکھ لیا۔ حاصل کیا ہوا۔ اور وہ کہہ رہے کہ ہمیں ضرورت ہے ایک ہزار اتاترکوں کی۔ ویسے جہاں تک ہماری ضرورت کا معاملہ ہے تو اسے بھی جاوید جبار صاحب نے غلط سمجھا ہے۔ ارے ایک ہزار اتاترک تو ہمارے بیچ اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرہ بن کر رہ جائیں گے۔
اچھا مان لیا کہ ہم فی الحال ایک ہزار اتاترکوں ہی سے کام چلانے کی کوشش کریں گے۔ بالکل نہ ہونے سے کچھ ہونا اچھا ہے۔ مگر یہ ایک ہزار اتاترک آئیں گے کہاں سے۔ اب ذرا جاوید جبار صاحب کی سنئے۔ فرماتے ہیں۔
''وہ زمانہ گزر گیا جب ایک اتاترک سے کام چل گیا تھا۔ ہمارا احوال یہ ہے کہ ایک ہزار اتاترک مہیا ہوں گے تب پٹری سے اتری ہوئی پاکستان کی گاڑی پٹری پر آئے گی''۔ آگے ٹکڑا لگاتے ہیں کہ ''یہ ایک ہزار اتاترک کہیں باہر سے نہیں آئیں گے۔ ارے میں ہوں' تم ہو' اور کتنے ہیں یعنی کہ ہم ہیں۔ ہمارے ہی بیچ سے وہ اتاترک برآمد ہوں گے''۔
ان کا یہ بیان پڑھ کر پہلے ہم ہنسے۔ پھر روئے۔ میں' تم' اور ہم۔ واہ واہ سبحان اللہ۔ ارے ہم اس جوگے ہوتے تو پھر ہمیں اتاترک کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ ہم اپنے ایک جاوید جبار سے کام چلا لیتے۔ ہم قحط الرجال کے مارے ہوئے ہیں۔ ہم جبار صاحب کی ایک ہزار کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے کہاں سے اتنے اتاترک لائیں گے۔
انھیں یہ کام شاید اس لیے سہل نظر آ رہا ہے کہ ان کے سامنے پاکستان کی پیدائش کی مثال ہے۔ کہہ رہے تھے کہ پاکستان دس ہفتوں کے نوٹس پر ظہور میں آ گیا تھا۔ مان لیا۔ اس سے انھوں نے یہ نتیجہ کیسے نکال لیا کہ دس ہفتوں کے نوٹس پر ایک ہزار اتاترک برآمد ہو جائیں گے۔ تمہارے منہ میں گھی شکر' خدا کرے ایسا ہی ہو تمہاری مراد بر آئے۔ ویسے ہم نے اپنے اشفاق احمد کو بھی ایک مرتبہ ایسی ہی امید باندھتے دیکھا تھا۔ ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے جب امیدوں کے کتنے گل پھول کھلا چکے تو کہنے لگے کہ اب تک میرے حساب سے پاکستان میں دس بارہ برٹرینڈ رسل پیدا ہو جانے چاہیے تھے۔ پتہ نہیں اب تک کیوں پیدا نہیں ہوئے۔ بہر حال ع
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
جاوید جبار کو بھی چاہیے کہ شجر سے پیوستہ رہیں' امید بہار رکھیں۔ بہار آئے ہی آئے۔ پہلی کلی تو وہ خود ہیں ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹھی بہت زرخیز ہے ساقی
اس کلی کے چٹکنے کی دیر ہے۔ پھر اتاترک برآمد ہوتے چلے جائیں گے۔ اتنے کہ ہمارے لیے انھیں سنگھوانا مشکل ہو جائے گا۔