دُکھ تکالیف مصائب و آلام عذاب یا انعام۔۔۔۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اپنے (مومن) بندے کو بیماریاں دے کر آزماتے ہیں۔


رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اپنے (مومن) بندے کو بیماریاں دے کر آزماتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ﷲ تعالیٰ سے ہر وقت دعا تو یہی مانگنا چاہیے کہ وہ ہمیں آزمائشوں سے محفوظ فرما کر عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ تاہم آزمائشیں، مصیبتیں، بیماریاں اور تکالیف قوموں کی زندگی کا حصہ ہُوا کرتی ہیں۔

ان حالات میں شریعت نے ہمیں صدق دل سے صبر کا حکم دیا ہے، نیک اعمال بالخصوص صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے، رجوع الی اﷲ اور دعاؤں کا حکم دیا ہے۔ آزمائشوں پر صبر کرنے کی وجہ سے اﷲ کی طرف سے انعامات کیا ملتے ہیں؟ آئیے! اس بارے چند احادیث مبارکہ دیکھتے ہیں۔

حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: مومن بندے کا معاملہ بہت عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اور ہر حالت خیر ہی خیر ہے اور یہ اعزاز سوائے اہل ایمان کے کسی اور کے نصیب میں نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی، راحت اور سُکھ پہنچے تو وہ اس پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے جو کہ اس کے حق میں خیر ہی خیر ہے۔ اور اگر اس کو غم، تکلیف یا دُکھ پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: انبیائے کرام ؑ کی، پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ جو افضل ہوں۔ ہر شخص کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے اگر اس کی دینی حالت مضبوط ہو تو آزمائش بھی سخت نوعیت کی ہوتی ہے اور اگر دینی حالت کم زور ہو تو آزمائش بھی اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ بندے پر مسلسل مصائب اور پریشانیاں آتی رہتی ہیں، یہاں تک وہ زمین پر اس حال میں پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (جامع الترمذی)

حضرت سخبرۃؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو نعمت دی گئی اور اس نے اس نعمت پر اﷲ کا شُکر ادا کیا، اسے مصیبت دے کر آزمایا گیا تو اس نے اﷲ کی مشیت و فیصلے پر صدق دل سے یقین کرتے ہوئے صبر کیا، اس نے گناہ کیا تو اس پر استغفار (اﷲ سے گناہوں کی معافی مانگنا) کیا اور اس پر کسی اور نے ظلم کیا تو بدلہ لینے کے بہ جائے ظالم کو معاف کر دیا۔ اتنی بات ارشاد فرما کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: جس بندے کے بارے میں آپؐ نے ساری گفت گو فرمائی ہے اس کو کیا اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں قرآن کریم کا حصہ تلاوت فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے: ''انہی لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔'' (المعجم الکبیر للطبرانی)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ثواب کے زیادہ ہونے کا مدار آزمائش کی سختی پر ہے، جس قدر سخت آزمائش ہوگی اسی قدر زیادہ ثواب ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائشوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جو شخص اﷲ کے اس فیصلے پر (صبر کرکے) راضی رہا تو اﷲ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور جو شخص اﷲ کے فیصلے پر ناراض ہوا تو اﷲ بھی اس پر ناراض ہو جاتے ہیں۔

حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب کبھی مومن بندے کو زیادہ تھکن پہنچتی ہے، یا تکلیف پہنچتی ہے، یا رنج پہنچتا ہے یا اذیّت پہنچتی ہے یا غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا لگنے جیسی معمولی تکلیف ہی کیوں نہ ہو (یعنی کوئی جسمانی یا روحانی تکلیف پہنچتی ہے) تو اﷲ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اپنے (مومن) بندے کو بیماریاں دے کر آزماتے ہیں یہاں تک کہ ان بیماریوں کی وجہ سے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین)

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اﷲ کے رسول ﷺ ایک درخت کے پاس تشریف لائے اس کی ٹہنی پکڑ کر زور سے ہلائی تو جس قدر اﷲ نے چاہا اس کے پتّے جلدی سے گرنے لگے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: میرے اس درخت کو ہلانے سے پتّے اس قدر تیزی سے نہیں گرے جس قدر تیزی سے ابن آدم کے گناہ اس وقت جھَڑتے ہیں جس وقت ان پر درد اور مصائب آتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ ایک مرتبہ حضرت ام سائب یا ام المسیب رضی اﷲ عنہا کے پاس بہ غرض عیادت تشریف لے گئے۔ وہ بخار کی شدت کی وجہ سے کپکپا رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے کیوں اس قدر کپکپا رہی ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ بخار ہے (یہ بخار ایسی چیز ہے کہ) اﷲ اس میں برکت نہ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بخار کو بُرا مت کہو! کیوں کہ یہ بنی آدم سے اس کی خطاؤں کو اس طرح دُور کر دیتا ہے جس طرح آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دُور کر دیتی ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبدالرحمٰن بن ازہرؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مومن بندے کو جب بخار ہو جائے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کا زنگ دُور ہو جاتا ہے اور عمدہ حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ ( اسی طرح مومن بندے کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں)۔ (المستدرک علی الصحیحین)

حضرت ابو سعید خُدریؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مومن بندے کو جب سر میں درد ہوتا ہے یا کوئی کانٹا چبھتا ہے یا پھر کوئی ایسی چیز جس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قیامت والے دن اس کی وجہ سے اس بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرمائیں گے اور ان کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔

(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت ابواُمامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو بندہ مرگی کے مرض کی وجہ سے گر جائے تو اﷲ تعالیٰ اس بندے کو اس مرض کی وجہ سے گناہوں سے پاک کر کے اٹھائیں گے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی)

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے طاعون کے بارے پوچھا، آپ ﷺ نے مجھے بتلایا کہ طاعون گزشتہ قوموں کے لیے باعث عذاب تھا جس نافرمان قوم پر اﷲ تعالیٰ چاہتے اس بیماری کو مسلط فرما دیتے تھے۔ اور اب اﷲ تعالیٰ نے اس بیماری کو ایمان والوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے جو شخص بھی طاعون کے مرض میں مبتلا ہو پھر وہ صبر کرتے ہوئے اور اﷲ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اپنے شہر یا گاؤں میں ٹھہرا رہے اور یہ یقین کر لے کہ وہی ہوگا جو اﷲ نے لکھ دیا ہے تو اس کے لیے شہید کی طرح اجر و ثواب ہے۔ (صحیح البخاری)

کورونا میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں:

طاعون ایک متعدی مرض ہے جیسا کہ آج کل کورونا وائرس ایک متعدی مرض کی صورت میں پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ ایسے موقع پر احتیاطی تدبیر وہی ہے کہ انسان سفر نہ کرے، ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نہ جائے۔ کیوں کہ اگر یہ جانے والا شخص خود اس مرض کا شکار ہے تو اس کی وجہ سے یہ مرض دوسروں تک بھی منتقل ہوجائے گا اور اگر اس جانے والے شخص کو یہ مرض لاحق نہیں تو ہو سکتا ہے جس علاقے میں یہ جائے وہاں کسی کو یہ مرض ہو جو اس کی طرف منتقل ہو جائے۔ اﷲ تعالیٰ تمام امراض سے محفوظ فرمائے، عافیت والا معاملہ فرمائے لیکن وہ ذات جب اپنے مومن بندوں کو امراض و مصائب میں مبتلا کرتی ہے تو یہ بھی ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں سے بچا کر اسلام والی زندگی ایمان والی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ

٭٭٭

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔