طالبان اور سوشل میڈیا کی طاقت

طالبان نے بروقت سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھا تھا، اس پر موثر کام کیا اور پھر چھا گئے


سالار سلیمان August 24, 2021
اگر آج سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید طالبان آج بھی ولن ہوتے۔ (فوٹو: فائل)

اگر ہم بغور دیکھیں تو طالبان کی اس فتح میں سوشل میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا تجزیہ غلط ہو لیکن آپ پڑھ کر فیصلہ کیجیے کہ کیا میں غلط ہوں؟

جب نائن الیون ہوا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا کا کوئی رحجان نہیں تھا۔ اس وقت انٹرنیٹ بہت سست روی سے چلتا تھا۔ ڈی ایس ایل کا عوام کےلیے وجود بھی نہیں تھا۔ موبائل فون ٹی نائن فارمیٹ کے ہوتے تھے۔ ہماری سب سے بڑی تفریح اس میں موجود چھوٹے چھوٹے گیمز کھیلنا ہوتی تھی اور وہ وقت اس لحاظ سے اچھا تھا کہ لوگ کتاب سے جڑے ہوتے تھے اور ہم ''ایج آف انفارمیشن'' میں داخل نہیں ہوئے تھے۔

قصہ مختصر، اس وقت بیانیہ کنٹرول کرنا آسان تھا۔ گنتی کا میڈیا ہوتا تھا۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات، ان کو قابو کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ پاکستان میں بھی یہ سب کچھ بہت آسان تھا۔ جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھیں جس میں وہ مشرف کے ٹیک اوور کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کیسے ان کی ٹیموں نے پاکستان کا میڈیا قابو کیا تھا۔ یہی صورتحال دنیا بھر میں تھی۔ میڈیا قابو کرنا، بیانیہ بنانا اور اذہان سازی کرنا اتنا مشکل نہیں تھا۔

جنہیں یہ لگتا ہے کہ فیس بک سے سوشل میڈیا کا آغاز ہوا، وہ بھی غلط ہیں۔ سوشل میڈیا میں فیس بک نے جدت ضرور متعارف کروائی ہے لیکن فیس بک سے پہلے مقبول عام گوگل کا ایک پلیٹ فارم آرکٹ ہوتا تھا، پھر مائی اسپیس نامی ایک ویب سائٹ تھی، مختلف میسنجرز کے چیٹ رومز ہوتے تھے۔ تاہم فیس بک کے آنے کے بعد سب کچھ دھندلا سا گیا تھا اور پھر جلد ہی وقت کی دھول میں گم بھی ہوگیا۔ اب یہ وہ دور ہے کہ جب نائن الیون کو ہوئے سات، آٹھ سال ہوچکے ہیں، امریکا تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے، افغانستان میں ایک ''جمہوری حکومت'' قائم ہوچکی ہے اور پوری دنیا میں امریکا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ پوری دنیا میں طالبان بدترین دہشتگرد مخلوق ہیں۔ وار آن ٹیرر اپنے جوبن پر ہے اور طالبان کا نام لینا جرم ہے، ان کےلیے بات کرنا تو گویا ناقابل معافی جرم ہے۔

اب یہاں سے سوشل میڈیا کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے، جس میں ڈی ایس ایل تک سب کی رسائی ہے۔ ٹو جی اور تھری جی کا دور ہے اور موبائل فون میں پاکستان اور دنیا اینڈرائیڈ اور آئی فون کی جانب جارہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہاں سے طالبان نے سوشل میڈیا کے ہتھیار کو سمجھ لیا تھا اور پہلے یہ گمنام ناموں سے اپنی خبریں پھیلاتے تھے اور پھر وہ نام لے کر اپنی خبریں پھیلانے لگ گئے۔ یہ بات روایتی میڈیا کےلیے ناقابل برداشت تھی، تاہم وہ شاید اس بات کو دور تک سمجھ نہیں پایا اور نتیجتاً افغان طالبان نے روس، قطر حتیٰ کہ یورپ اور کینیڈا میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا۔ اس بات کی تائید وہ چند گرفتاریاں ہیں جو 2015 میں ہوئیں اور پھر عدم ثبوت پر اگرچہ انہیں رہا کیا گیا لیکن ان پر نگرانی قائم رکھی گئی۔

طالبان نے اس کے بعد ٹویٹر، فیس بک حتیٰ کہ انسٹاگرام کا استعمال بھی کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر کے سوشل میڈیا کو استعمال کیا، جس میں روس اور چین کی سوشل میڈیا ایپس بھی شامل ہیں۔ شنید ہے کہ ان ایپس نے ہی طالبان کا بیانیہ سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اینٹی طالبان فضا جو کہ مغربی میڈیا کی وجہ سے قائم ہوئی تھی اس کو زائل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہاں سے انہوں نے اور ان کے حامیان نے روایتی میڈیا کے ہر وار کا کاری جواب دیا۔ روایتی میڈیا تو جھوٹ بول کر بیانیہ بیچتا تھا، ولن بناتا تھا، طالبان کا نیٹ ورک اس کے جواب میں نہ صرف تردید جاری کرتا تھا بلکہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کے ثبوت بھی جاری کردیتا تھا۔ پھر یہی سب کچھ تب زیادہ شدت سے ہونا شروع ہوا جب قطر میں مذاکرات شروع ہوئے۔ اس سے قبل کہ امریکا اپنی مرضی کا بیانیہ مارکیٹ میں بیچتا، طالبان اپنا موقف اور بیانیہ سامنے لاتے رہے اور اب طالبان سمجھ چکے تھے کہ امریکا شکست خوردہ ہے، وہ اپنی منوا لیں گے اور اسی لیے باوجود امریکا کی بارہا درخواست کے، طالبان نے امریکی میڈیا کی ایک نہ چلنے دی بلکہ سوشل میڈیا کے انتہائی موثر استعمال کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوج کے دم دبا کر بھاگنے کے بعد طالبان تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے گئے۔

طالبان نے ایک ہوا تو اپنے انٹرنیٹ نیٹ ورک سے بنا لی تھی کہ ہم فاتح ہیں۔ یہ ہوا پورے افغانستان میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کا اثر افغان عوام پر بھی ہورہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے میڈیا، عوام کو علم تھا کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور اس میں اب روایتی میڈیا ہی سورس آف انفارمیشن نہیں تھا بلکہ سوشل میڈیا سورس بن چکا تھا۔ اُس پر جہاں ان کے قدم جمتے گئے تو سب سے پہلے امن اور پھر فوری انصاف اور پھر اس کی خبر اپنے نیٹ ورک سے جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیلا دی۔ لہٰذا، جب انہوں نے کابل کی جانب حتمی مارچ کیا تو افغان فورسز میں مورال بالکل ختم ہوچکا تھا اور حیران کن بلکہ انگشت بدنداں نتائج سب کے سامنے ہیں۔

آج بھی مغربی میڈیا جیسے ہی کوئی درفطنی چھوڑتا ہے، طالبان کی جانب سے تردید آجاتی ہے۔ مغرب کے میڈیا نے اب بھی اپنا روایتی دوغلا پن دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنی منافقت دکھائی ہے۔ لیکن طالبان کا نیٹ ورک اور خیر سے اب تو خود طالبان بھی بالکل سامنے آچکے ہیں، لہٰذا اس کی فوری نہ صرف تردید آجاتی ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ خبر اصل میں کہاں کی ہے اور یہ کہ اس میں ایڈٹنگ ہوئی یا نہیں ہوئی ہے۔ طالبان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں جو اعلانات کیے ہیں، انہوں نے یہی کہا ہے کہ میڈیا کو کام کی آزادی ہے لیکن اس پر لازم ہے کہ وہ سچ کو ہی دکھائے گا۔ اس میں غلط کیا ہے؟ پریس کا کام کیا ہے؟ حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنا، اُن حقائق کے ساتھ اپنا خیال پیش کرنا، جس کو تجزیہ کہتے ہیں، حقائق لوگوں تک پہنچا دینا، لیکن یہ کام تو میڈیا کا نہیں ہے کہ کسی ایک کا بیانیہ آگے بڑھانا اور کٹھ پتلی کی طرح سے ناچتے جانا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی ساکھ میں کمی اور سوشل میڈیا کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا میں کتنا جھوٹ بکتا ہے، یہ ایک الگ تحریر کا متقاضی مضمون ہے۔

یہاں ایک انتہائی اہم نقطہ لکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ طالبان کو اب گلوبل دنیا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ ان کو شریعت اور افغان روایات میں فرق کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ ابھی بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ طالبان ''سدھر'' گئے ہیں، لیکن سکے کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ طالبان یہ سب کچھ ''شاید'' اس لیے کر رہے ہیں کہ عالمی دنیا اُن کو قبول کرے اور خدشہ ہے کہ قبولیت کے بعد وہ اپنی ڈگر پر واپس چلے جائیں گے۔ لہٰذا، طالبان کو ایک فائن لائن لینی پڑے گی۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ دنیا سے کٹ کر لمبا عرصہ نہیں رہ سکتے اور جس سوشل میڈیا نے ان کی جیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہی سوشل میڈیا ان کےلیے خطرہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ طالبان جتنی مرضی پابندی لگادیں، لیکن ایک حقیقت پر مبنی ٹویٹ، ایک فیس بک کی پوسٹ ان کی پوری ساکھ کو تباہ کرسکتی ہے۔ اگر روس اور چین اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے ساتھ سوشل میڈیا کے سیلاب کو نہیں روک سکے اور وہاں سے خبریں باہر آتی ہیں اور پھر دنیا بھر میں موضوع بحث بنتی ہیں تو روک طالبان بھی نہیں سکیں گے۔ لہٰذا جو وعدے وہ کر رہے ہیں، جو تعمیر نو کی امیدیں وہ دے رہے ہیں، لازمی ہے کہ وہ اپنے الفاظ کا پاس بھی رکھیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر آج سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید طالبان آج بھی ولن ہوتے۔ چلیے ولن نہ ہوتے تو شاید وہ ہیرو بھی نہ ہوتے۔ امریکی صدر کو شکست خوردہ لہجے میں اپنے انخلا کی وضاحتیں پیش نہ کرنی پڑتیں اور دنیا یہی سمجھتی کہ امریکا نے افغانستان میں جمہوریت کی بالادستی کرتے ہوئے افغانوں کو زمانہ قدیم کی بربریت سے بچایا ہے اور وہاں امن قائم کیا ہے۔ طالبان نے بروقت سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھا تھا، اس پر موثر کام کیا پھر چھا گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں