آزادی کے 74 سال بعد

آزادی کے 74 سال بعد ہندوستان میں مسلمان بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہندوستانی مسلمان ہر شعبے میں زوال پذیر ہیں


پاکستان مضبوط ہوگیا تو یقین کیجئے ہندوستانی مسلمان بھی سکھی ہوجائیں گے۔ (فوٹو: فائل)

اس کی دکھ بھری آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ انتہائی شکست خوردہ اور اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ گاڑی کو یخ ٹھنڈا کرنے والا اے سی بھی ماحول کو خوشگوار رکھنے میں ناکام ہوچکا تھا۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے عرض کرتا چلوں کہ میری اس بھارتی مسلمان سے اچانک ملاقات ہوئی تھی۔ راشد بھائی کی ڈیوٹی اچانک ملتوی ہوگئی تو مجھے اس کے ساتھ جانا پڑا۔

''مجھے آپ لوگوں سے شکوہ نہیں ہے۔ آپ تو وہاں پر پیدا ہوئے ہو، آپ کا کیا قصور ہے۔ ہم ہندوستانی مسلمان پاکستانیوں کو بے قصور سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ ہم تو یہ کہتے ہیں مسلمان ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اگر مسلمان ہمیں چھوڑ کر نہ جاتے تو آج ہم اکثریت میں ہوتے۔ اور جب ہم اکثریت میں ہوتے تو ہندو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتے۔ آج ہندوستان میں اردو کا راج ہوتا۔ مگر مسلمان تقسیم کے وقت تقسیم ہوگئے، جو چلے گئے وہ بھی کسمپرسی میں گئے اور جو باقی رہ گئے وہ بھی دھیرے دھیرے کمزور پڑتے گئے۔ آج آزادی کے 74 سال بعد ہندوستان میں مسلمان بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اردو ختم ہوچکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں ہر چیز اردو میں تھی، مگر آج کئی اردو یوینورسٹیاں بند ہوچکی ہیں، اور جو باقی ہیں ان میں مسلمان اردو پڑھنا نہیں چاہتے، کیونکہ اردو پڑھنے والوں کو نوکری نہیں ملتی۔''

وہ بولا تو بولتا ہی چلا گیا۔ میں ایک تابعدار طالب علم کی طرح اسے سن رہا تھا۔ میری کوشش تھی کہ وہ ''سب کہہ دے''۔ وہ ایک لمحے کو رکا اور بولا۔

''یہ صرف ایک مثال ہے۔ آج کا ہندوستانی مسلمان ہر شعبے میں زوال پذیر ہے، اور ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ یہ سب غلط تقسیم کی بدولت ہوا۔ اگر ہندوستان کی تقسیم اقبال کے فلسفے کے مطابق ہوتی، یعنی تمام مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک مملکت بنادی جاتی تو نہ صرف یہ کہ آج کا پاکستان معاشی اور سیاسی لحاظ سے ایک مضبوط ملک بن کر مسلم امہ کی سرپرستی کررہا ہوتا، بلکہ آج کا ہندوستانی مسلمان مظالم کی چکی میں بھی نہ پس رہا ہوتا۔''

وہ خاموش ہوا تو میں نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر بے بسی تھی۔ وہ زبان حال سے کہنا چاہ رہا تھا، ''جو ہوا سو ہوا، آپ ہمارے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے، کم ازکم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ موجودہ پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ ایک ایسا پاکستان جس کی ہاں میں دنیا کی ہاں ہو۔ ایک ایسا پاکستان جو امریکی صدر کی فون کال کا منتظر نہ ہو۔ ایک ایسا پاکستان جہاں پر مودی چل کر جائے نہ کہ مودی کے ترلے کیے جارہے ہوں۔ کشکول سے خالی پاکستان، جس کی عدالتوں میں انصاف کےلیے نسلوں کو انتظار نہ کرنا پڑے۔ جہاں پر معصوم کلیاں معلمین کے زیر سایہ تحفظ محسوس کریں۔ جہاں پر غربت، بھوک، افلاس کے ڈیرے نہ ہوں۔ اور ایسا کرنا بے حد آسان ہے۔ اگر ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے، ہر ایک پاکستان سے مخلص ہوجائے، حکمرانوں سے امیدیں چھوڑ دی جائیں۔ اور ہر ایک پاکستانی اپنی ذات سے تبدیلی شروع کردے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اور پاکستانی قوم دنیا میں سرخرو ہوسکے۔''

''اگر پاکستان مضبوط ہوگیا تو آپ یقین کیجئے ہم ہندوستانی مسلمان بھی سکھی ہوجائیں گے۔ ظالموں کو معلوم ہوگا کہ ان کا حساب لینے والا کوئی موجود ہے۔ آپ کی خوشحالی سے جو خوشی ہمیں محسوس ہوتی ہے اس کا آپ اندازہ کرنے سے قاصر ہیں۔''

اس نے جو باتیں کہی تھیں بیتے ماہ و سال میں اکثر ہندوستانی مسلمانوں سے سننے کو ملی تھیں۔ مجھے ہر بار یہی محسوس ہوا کہ ان کے جسم تو ہندوستان میں ہیں مگر دل پاکستان میں ہیں۔ گاڑی اپنی منزل مقصود پر پہنچ چکی تھی، میں نے اسے اللہ حافظ کہا اور کمپنی کے داخلی گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں