کچھ وارث علوی کے بارے میں

یہ بھی ایک ماجرا ہے کہ ایک ہنر مند جاتا ہے تو آگے پیچھے کئی ایک اور چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں کچھ ایسا ہی ہوا۔


Intezar Hussain January 26, 2014
[email protected]

یہ بھی ایک ماجرا ہے کہ ایک ہنر مند جاتا ہے تو آگے پیچھے کئی ایک اور چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں کچھ ایسا ہی ہوا۔ ابھی ہم دائود رہبر کے چلے جانے پر اپنے افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ ایک ایسے ناشر نے جس نے اس بے فیض عہد میں اردو ادب کے پرانے سوتوں کو، جو کب سے بند پڑے تھے، پھر سے کھولنے کا اہتمام کیا دنیا سے گزر گیا۔ یہ تھے سنگ میل والے نیاز احمد اور عین اسی ہنگام ہندوستان سے خبر آئی کہ وارث علوی گزر گئے۔

جو جانتے ہیں وہ تو جانتے ہیں، جو نہیں جانتے وہ یہ جان لیں تو اچھا ہے کہ اس وقت ہمارے ادب میں جو گنے چنے چوٹی کے نقاد ہیں ان کے بیچ وارث علوی کی تنقید اس طرح جلوہ گر تھی کہ اس کا لہجہ ہم عصر تنقید سے بالکل الگ نظر آتا۔ عالمانہ اور ثقہ لہجے کو بالائے طاق رکھ کر اس نقاد نے بات کہنے کا ایسا طور اپنایا تھا کہ فقرہ تیر کا کام کرتا تھا۔

اس وقت ہمارے سامنے ان کی ایک ایسی تحریر ہے جس میں وہ نئے افسانے پر رواں نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نئے ''اردو ادب کی نجات اسی میں ہے کہ نئے افسانے کی گردن بے دریغ ماری جائے۔''

مگر کیوں۔ ان کا استدلال سنئے ''یہ قتل اس لیے ضروری ہے کہ اردو ادب کو اپنا کھویا ہوا قاری مل جائے۔

...... ادب کی تخلیقی اصناف زندہ نہ ہوں تو ادب تحقیقی، تنقیدی، تاریخی، مذہبی اور عالمانہ کتابوں کا ذخیرہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بیورو اور اکیڈمیاں ایسی ہی کتابیں شایع کر رہی ہیں لیکن یہ کتابیں زندگی کی علامت نہیں، موت کی نشانیاں ہیں۔ زبان کو صرف شاعر اور افسانہ نگار زندہ رکھتا ہے... میں سمجھتا ہوں کہ جب زبان اپنی مرگ کے قریب آتی ہے تو پنڈت اور عالم زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ سنسکرت کے مرنے کے بعد بھی سنسکرت کا پنڈت نہیں مرا تھا بلکہ آج بھی زندہ ہے۔ ہتھوڑا، جادوئی چھڑی سے زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔ جب ٹوٹ جائے تو دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔

جادوئی چھڑی ایک بار گم ہو جائے تو اس کا دوبارہ ملنا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔ اور آج اردو افسانہ اسی معجزے کے انتظار میں ہے۔''

نئے افسانے پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس نے جادوئی چھڑی گم کر دی۔ پھر وہ افسانہ نہیں رہا۔ ادب لطیف بن کر رہ گیا۔ یعنی اس قسم کی تحریر کہ افسانے کے نام پر شاعری ہو رہی ہے۔ اچھی نثر غائب، شاعرانہ نثر پر اتر آیا۔ اس چکر میں اچھی نثر بھی ہاتھ سے گئی۔ اور بیچ میں سے کہانی بھی غائب ہو گئی۔ اور پھر یہ ہوا کہ افسانے کا قاری ایسا بِِدکا کہ افسانے کے ساتھ ادب ہی سے بھاگ کھڑا ہوا۔

اس سے آگے سنیے ''ایک زمانہ تھا جب اعلیٰ ترین ناولوں کے تراجم کی ہمارے یہاں ریل پیل تھی۔ عسکری نے فلابیر اور ستاں دال کے ناولوں کے ترجمے کیے۔'' تو پھر کیا ہوا۔ وارث علوی کے حساب سے سنجیدہ فکشن کا قاری بھوکا مرنے لگا ''انگریزی وہ پڑھتا نہیں، تراجم ہوتے نہیں، روایتی افسانہ دم توڑ چکا ہے اور پڑھنے کے لیے یا تو بیسٹ سیلرز رہ گئے ہیں یا بے کیف اور بدہیئت تجرباتی یا تمثیلی افسانے۔ چنانچہ وہ ادب پڑھنے کے بجائے دوسری تفریحات تلاش کر لیتا ہے۔''

تو اس رنگ سے علوی نے اردو افسانے کی صورتحال کا تجزیہ کیا تھا۔ ان برسوں میں جب علامتی تحریری افسانے کی بہت واہ واہ ہو رہی تھی۔ علوی نے اس سلسلہ میں مستثنیات کا بھی ذکر کیا تھا۔ مگر عمومی نقشہ یہی دکھایا گیا تھا۔

اس نقاد سے ادب کی تعریف سنئے۔ کہتا ہے کہ ''ادب جواب نہیں سوال ہے'' اس ایک چھوٹے سے فقرے میں کتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ادب کے ان قارئین سے خطاب ہے جو افسانہ اور شعر پڑھنے کے بعد کہتے ہیں کہ لکھنے والے نے اتنا کچھ لکھا مگر مسئلہ کا حل نہیں بتایا۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ ''حالیؔ نے تو تنقید کو ایک اخلاقی ذہن عطا کیا تھا۔ وہ بہرحال ڈاکٹر جانسن اور آرنلڈ کی تہذیبی تنقید کے نمایندہ تھے۔ ترقی پسندوں تک آتے آتے حالیؔ کی یہ اخلاقی روایت نعرہ زنی' پروپیگنڈا' صحافت' پمفلٹ بازی، کٹھ ملائیت' تنگ نظری اور سیاسی ڈپلومیسی کا شکار ہو گئی۔''

ان کے مجموعہ 'بت خانۂ چین' کے دیباچہ نگار کا ایک بیان یہاں نقل کیا جائے تو بجا ہو گا کہ یہاں وارث علوی اپنے انداز بیان کی توجیہہ کس طرح کرتے ہیں ''ایک طرف فقرہ بازی' دوسری طرف اقوال زریں کی چمک دمک۔ فیصل جعفری کا ان کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سلیم احمد کے بعد وارث علوی نے فقر بازی کو اس مقام تک پہنچایا جہاں اب کسی اور کا پہنچنا دشوار ہے۔ میں نے ان سے ایک بار پوچھا کہ تم میں یہ ظرافت آئی کہاں سے تمہارے والد صاحب تو بہت مذہبی اور مقطع آدمی ہیں۔ کہنے لگے کہ یہ میری والدہ کا ورثہ ہے جو اپنے وقت میں اپنی سہیلیوں میں سب سے زیادہ بذلہ سنج خاتون تسلیم کی گئی تھیں۔''

باپ سے قطع نظر کر کے ماں سے اس طرح کا فیض پانے کا اعتراف یا تو ایک موقع پر میر انیسؔ نے کیا تھا یا اب وارث علوی نے کیا ہے۔

اب ذرا اس دیباچہ نگار کی زبانی وارث علوی کی ذاتی زندگی کے بارے میں سنئے ''وارث علوی مشائخین کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ مریدوں میں بھی جاتے رہتے تھے۔ نماز کے پابند تھے، ایک شوق انھیں یہ تھا کہ شہر کی مختلف مسجدوں میں نماز ادا کرتے۔ اس وقت یعنی سولہ سترہ برس کی عمر میں اسکول کے زمانے میں وہ سوٹ ٹائی اور فلیٹ ہیٹ پہنتے تھے۔ مسجد میں جا کر موزے، جوتے، فلیٹ ہیٹ، کوٹ اور پتلون بھی اتار لیتے کہ اندر شلوار پہنی ہوتی۔ نماز کے بعد پھر پتلون، کوٹ، ٹائی، موزے، جوتے اور ہیٹ پہن لیتے۔''

یہ بچپن کا احوال تھا۔ بڑے ہونے پر ان کا احوال یوں بیان ہوا ہے ''رنگین مزاج کے آدمی ہیں۔ میں نے اتنا مست مولا آدمی نہیں دیکھا۔ ادب نواز دوست انھیں گھیر کر کافی ہائوس لے جاتے اور وہ وہاں خوب چہکتے۔ فلموں کا بہت شوق تھا۔''

''حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف کتابوں اور اپنے بچوں میں جئے۔ اپنی لڑکیوں ہی کو نہیں بلکہ اپنے نواسے نواسیوں تک کو انھوں نے اپنی گود میں بڑا کیا۔ کانکریہ تالاب اور وہاں کے چڑیا گھر کے وہ عاشق تھے۔ بچوں کو لے جاتے اور جانوروں اور پرندوں کے سامنے خود بھی بچے بن جاتے۔ باقاعدہ ورزش اور کانکریہ تالاب کے دو چکر لگانا ان کا روز کا معمول تھا۔ وہ تنقید میں سخت لیکن ادیبوں اور شاعروں سے میل جول میں بہت نرم اور خندہ جبیں۔ احباب نواز، کنبہ پرور اور مجلس ساز شخصیت۔''

احمد آباد میں پلے بڑھے۔ اس شہر میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ فساد سا فساد۔ مگر اس مٹی کو نہیں چھوڑا۔ وہیں مٹی ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں