پاکستان کا تیرہ سالہ دارالخلافہ

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کے غیر معیاری منصوبوں میں لوگ اپنا سرمایہ کیوں لگاتے ہیں۔


قمر عباس نقوی August 06, 2021

یہ تقریباً 220 سال قبل کا ایک بھولا بسرا زمانہ تھا جب بحیرہ عرب کے خوبصورت سمندری ساحل پر ''کلاچو'' نام کے بلوچ ماہی گیروں کی بستی آباد تھی جو کچھ عرصہ بعد '' کلاچی '' کہلانے لگی۔

آہستہ آہستہ آبادی میں اضافہ ہوتا رہا اور یوں کھارادر، لیاری، کیماڑی، لی مارکیٹ جیسی بستیاں آباد ہوتی چلی گئیں، چونکہ ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اسی مناسبت سے کروٹیں بدلتی ہوئی صورتحال سے یہاں بندرگاہ تعمیر ہو گئی اور یوں بیرونی دنیا سے درآمدات اور برآمدات کا تجارت کی شکل میں سلسلہ چل پڑا۔

حقیقت کے آئینہ سے دیکھا جائے تو کراچی کو بنیادی طور پراسی ٹھاٹے مارتی ہوئی ظالمانہ لہروں کے سمندر اور اس کے ساحل پر تعمیر شدہ خوبصورت'' بندرگاہ'' نے فوقیت دی جو مختلف انواع کے صنعتی پیداواری کارخانے قائم ہونے کا سبب بنیں۔ یاد رہے ! فرنگیانہ دور میں انتظامی لحاظ سے کراچی مہاراشٹر کا حصہ ہونے کے ناتے بمبئی سے ملا ہوا تھا۔

یہ شہر مختلف ادوار کی عکاسی کرتا ہوا دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے ماضی میں تیس سے زائد ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ 1860کی دہائی میں جب اس شہر میں چیمبر آ ف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں آیا تو اس نے سب سے پہلے اس شہر کو ''کراچی '' کا نام دیا اور 1925میں اسے باضابطہ میٹروپولیٹن کی حیثیت دی گئی۔

قیام پاکستان کے وقت مملکت کو دو بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ ایک مالیات اور دوسرے رہائشی سہولیات کی عدم موجودگی ، وہ اس لیے کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجر خاندانوں کی آباد کاری تھا۔ کراچی کو پورے ملک کا دارالخلافہ بنانے اور ہندوستان سے ہجر ت کرنے والے مہاجرین کا کراچی کی طرف رخ کرنے کی بنیادی اور اہم وجہ بھی یہی تھی کہ یہاں سمندر تھا اور ایک عظیم بندرگاہ منوڑہ قائم تھی، جو بلا شبہ بیرونی دنیا سے تجارت کا ایک آسان اور فوری ذریعہ تھا۔

یہ سچ ہے کہ تجارت و صنعت پورے ملک کی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مالیات کے تمام اداروں کے مرکزی دفاتر بھی اسی کراچی ہی میں قائم کیے گئے تھے۔ صدر سے متصل علاقے جیکب لائن، جیٹ لائن آباد کیے گئے۔

سرکاری ملازمین کے لیے رہائشی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے جہانگیر روڈ اور جمشید روڈ کے کھلے علاقہ میں سرکاری کوارٹرز تعمیر کیے گئے اور یہ سلسلہ فیڈرل کیپیٹل ایریا تک وسعت اختیار کر گیا جہا ں وفاقی حکومت نے ایک وسیع رقبہ پر دو منزلہ فلیٹ تعمیر کرکے ملازمین کی رہائش کا بندوبست کیا۔

سول سروسز کے افسران کے لیے گارڈن کے علاقہ میں فلیٹس تعمیر کیے گئے۔ نوزائیدہ مملکت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی ذاتی کوششوں سے چالیس گز کی رہائشی اسکیم متعارف کروائی گئی اور اس علاقے کا نام لالو کھیت کی جگہ وزیراعظم کے نام سے '' لیاقت آباد'' رکھ دیا گیا۔

اسی اثنا میں 1949 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے انہی علاقوں کے قریب ترین علاقہ میں ایک سیٹلائٹ ٹاون بسانے کا اعلان کیا جس کے لیے لالوکھیت (لیاقت آباد) کے نزدیک ایک ہزار ایکڑ بنجر اور ناہموار زمین حاصل کی گئی۔ لہذا گیارہ فروری 1950 کو اس ٹاؤن کے منصوبہ کا باقاعدہ اور با ضابطہ اعلان کیا گیا۔ اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام ''ناظم آباد '' رکھ دیا گیا۔ اسی ناظم آباد سے تھوڑے فاصلہ پر ملک کا سب سے بڑا انڈسٹریل زون قائم کیا گیا جو ''سائٹ '' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سپر ہائی وے کا شمار ملک کی اہم ترین شاہراہ میں ہوتا ہے جو موجودہ موٹر وے قوانین کے تحت M-9 کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شاہراہ کا افتتاح 29 اپریل 1970 کو سابق صدر مملکت جنرل یحیی خان نے کیا تھا اور اس افتتاحی تقریب میں گورنر مغربی پاکستان، کابینہ کے اہم وزرا، کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر ، پولیس کے اعلی حکام اور تینوں مسلح افواج کے معزز سربراہان نے شرکت فرمائی تھی۔ یہ عظیم منصوبہ نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، گلشن اقبال اور لیاقت آباد، فیڈرل کیپٹل ایریا سے ملحق تھا، اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔

دعا دیجیے اس وقت کے صدر مملکت جنرل محمد ایوب خان کو جن کو اسلام آباد کے پہاڑوں پر کیا نظر آیا کہ انہوں نے 1960 میں ملک کا دارالخلافہ کراچی سے ان پہاڑوں میں شفٹ کر دیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں جاری و ساری ترقیاتی منصوبے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوست خاک ہو گئے۔

بلدیاتی نظام کے فقدان سے قومی اور تاریخی پس منظر رکھنے والا فیڈرل بی ایریا بھی ایسے ہی مسائل زدہ علاقوں کی فہرست میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں علاقہ کے کچھ درد مند افراد نے'' اپنی مدد آپ کے تحت'' کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اورمتفقہ طور پر '' فیڈرل بی ایریا ریذیڈنس فورم'' کے نام سے تشکیل دیا ہے ۔

حال ہی میں اس فورم کا افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں فیڈرل بی ایریا کے مکینوں کے درپیش مسائل اور فورم کے قیام کے اغراض و مقاصد پیش کیے گئے ۔ علاقہ مکینوں کو درپیش صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کے ناقص انتظامات، کچرہ کنڈیوں جیسے مسائل کے حل کے لیے فورم نے اپنی کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

فیڈرل بی ایریا کی ایک خوبی جو اس میگا اور میٹروپولیٹن سٹی میں دوسرے علاقوں سے ممتا ز کرتی ہے وہ ہے پورے علاقوں میں وافر تعداد میںہرے بھرے کشادہ پارکس اور کھیلوں کے میدان ہیںجو کسی زمانہ میں شاد و آباد ہوا کرتے تھے اب یہ میدان آوارہ کتوں اور کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے،یہ علاقہ نہ صرف پارکس ، باغات اور کھیلوں کے میدان کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا بلکہ یہاں تعمیر ہونے والے رہائشی فلیٹس نہایت محدود تعداد میں کشادہ اراضی میں چار منزلہ فلیٹس بمع پارکنگ کے لیے کشادہ کمپاونڈ تعمیر کیے گئے تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے فلیٹوں کے پروجیکٹ صرف دو طرفہ وسیع سڑکوں پر مشتمل شاہراہ پاکستان کے دونوں اطراف تعمیر تھے۔ ان سڑکوں کے دونوں اطراف بیس فٹ چوڑا سروس روڈ بھی تھا۔

کریم آباد سے سہراب گوٹھ تک ان فلیٹوں کے مد مقابل چار سو گز کا بنگلوں کی پٹی تھی جو علاقہ کا حسن پیش کیا کرتی تھی۔ بدقسمتی سے ان بنگلوں کو توڑ کر بلندو بالا بارہ تیرہ منزلہ رہائشی فلیٹس کے منصوبہ تعمیر کیے گئے ہیں جن میں پارکنگ کے لیے ایک فلور بھی مختص نہیں کیا گیا۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کے غیر معیاری منصوبوں میں لوگ اپنا سرمایہ کیوں لگاتے ہیں،جہاں وہ اپنی گاڑی محفوظ طریقہ سے کھڑی نہ کر سکیں۔ جب تک ہم خود اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے لاکھ فلاحی فورم بن جائیں ، لاکھ اتحاد قائم ہوجائیں، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز اسی نقطہ میں پوشیدہ ہے۔ بس شرط ہے کہ اپنے آپ کو درست کرو،اسی میں ہمار ی اور قوم کی فلاح ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں