کشمیر انتخابات ہار اور جیت کی وجوہات

مسلم لیگ ن کشمیر انتخابات میں ہیرو سے زیرو، جبکہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی زیرو سے ہیرو بن چکی ہیں


تحریک انصاف کی کامیابی کو اپوزیشن جماعتیں دھاندلی قرار دے رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

قانون ساز اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے نام پر سر جوڑے بیٹھی ہے۔ سرمایہ دار تنویر الیاس وزیراعظم بنیں گے یا بیرسٹر سلطان محمود کے سر تاج سلطانی سجے گا؟ تاحال میڈیا پر ان دو ناموں کا تذکرہ ہے، لیکن بھمبر سے چوہدری انوار الحق اور مظفر آباد سے خواجہ فاروق احمد بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس کا حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کریں گے، تاہم مزید دو افراد کا نام سامنے آنے کے بعد مقابلہ زیادہ سخت ہوچکا ہے۔

تحریک انصاف کی کامیابی کو اپوزیشن جماعتیں دھاندلی قرار دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف دھاندلی سے کامیاب ہوئی ہے؟

کشمیر الیکشن سے قبل تمام نوجوان صحافی دوستوں نے ریاست بھر میں نتائج کےلیے ایک بڑا منصوبہ بنایا۔ ہر حلقے میں دو سے تین صحافی آر او آفس میں موجود رہے، جبکہ متعدد دوست اسلام آباد اور مظفرآباد میں نتائج کی گنتی میں مصروف رہے۔ نتائج میں تاخیر اور اچانک تبدیلیوں سے سبھی دوست حیران تھے، کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلی بار انتخابی نتائج آنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ قانون ساز اسمبلی انتخابات میں ہمیشہ ہی شب 9 بجے تک تمام نشستوں کا اعلان ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن مسلسل ایک ماہ سے ہم سبھی لوگ انتخابات کو مانیٹر کر رہے تھے اور ٹرن آؤٹ زیادہ ہونے کے باعث ہمیں بھی نتائج میں تاخیر کا اندازہ تھا۔

تحریک انصاف کی کامیابی اور انتخابی نتائج کے بعد چند سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی کامیابی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا ثبوت ہے؟ کیا ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا بیانیہ کامیاب ہوا ہے یا ن لیگ کے بیانیے کی شکست ہوئی ہے؟ ن لیگ کی شکست کی وجوہ کیا ہیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کیسے بن گئی ہے؟ کیا عوام نے ن لیگ کو مسترد کردیا ہے؟ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی وجوہ کیا ہیں؟

تحریک انصاف آزاد کشمیر انتخابات میں کامیابی کو اپنے بیانیے کی جیت قرار دے رہی ہے، لیکن درحقیقت قانون ساز اسمبلی میں بیانیے سے زیادہ برادری ازم اور الیکٹیبلز کی سیاست ہوتی ہے۔ وہی پارٹی آزاد کشمیر میں کامیاب ہوتی ہے، جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ 25 برس کے انتخابات کا جائزہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

1996 میں وفاق میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور آزاد کشمیر میں بھی پی پی پی کی حکومت بنی۔ 2001 میں وفاق میں جنرل (ر) پرویز مشرف برسر اقتدار تھے۔ کسی بھی قومی سیاسی جماعت کو قانون ساز اسمبلی انتخابات میں کامیابی نہ مل سکی، یوں مسلم کانفرنس کو مظفرآباد میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح 2006 میں بھی پاکستان میں مسلم لیگ ق اور پرویز مشرف برسر اقتدار تھے۔ آزاد کشمیر قانون سازاسمبلی انتخابات میں مسلسل دوسری بار ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوگئی۔ 2008 میں وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا۔ 2011 میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار قانون ساز اسمبلی کے اکھاڑے میں اتارے اور دس سال کے بعد دوبارہ اقتدار کا موقع مل گیا۔ اس اسمبلی کی مدت 2016 میں مکمل ہوئی، لیکن وفاق میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار آچکی تھی۔ ن لیگ نے مسلم کانفرنس کے الیکٹیبلز سے رابطہ کیا، انہیں وزارتوں اور اہم عہدوں کا لالچ دیا، اور 2016 میں مظفرآباد میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

مسلم کانفرنس کے الیکٹیبلز کے ذریعے جو کھیل مسلم لیگ نون نے کھیلا 2021 میں وہی کھیل ن لیگ کو ہی الٹا پڑ گیا۔ کیونکہ اب کی بار تحریک انصاف نے ان الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ ایک رات قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے والے افراد کو ٹکٹ مل گئے۔ مسلم لیگ ن نے کئی حلقوں میں بھرپور مقابلہ کیا، لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر کی تاریخ بدل نہ سکی۔

ن لیگ کی شکست میں جہاں الیکٹیبلز کی ہمدردیاں بدلنے کا کردار تھا، وہیں لیگی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اپنے حلقے کے عوام کی طرف توجہ نہ دینا بھی تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کشمیر میں وفاق کی پارٹی کی حمایت کا کلچر ہے تو پیپلز پارٹی 11 نشستوں پر کامیاب کیسے ہوگئی؟

پاکستان پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر میں الیکٹیبلز کی سیاست کے بجائے جیالوں کو ٹکٹ جاری کیے۔ وہی جیالے جو روز اول سے پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ یہ افراد حلقے کے عوام میں موجود رہے ہیں۔ کارکنان کے ساتھ مکمل رابطے میں رہے اور یوں گزشتہ انتخابات میں تین نشستوں والی پارٹی آج اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کو اپنی شکست کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں۔ جبکہ حکومت کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی شکست کی وجوہات ان کا بیانیہ تھا۔ ساتھ ہی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوامی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ وزیراعظم کا وژن عوام میں مقبول ہورہا ہے۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت ہے کہ وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں ہمیشہ وفاقی حکومت ہی اقتدار میں رہتی ہے، کیونکہ ایڈمنسٹریٹیو ایریاز اپنے فنڈز اور پیکیجز کےلیے وفاق کے مرہون منت ہیں۔ آزاد کشمیر انتخابات کو بھی دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے آزاد کشمیر کے 33 حلقوں میں سے محض 16 پر کامیابی حاصل کی ہے، جو کہ کسی بھی صورت میں سادہ اکثریت نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو مہاجرین کی نشستوں سے کامیابی ملی ہے جن میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نشستیں اہم ہیں، جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ان انتخابات کو دیکھ کر کسی بھی پارٹی کی سیاسی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

مسلم لیگ ن کشمیر انتخابات میں ہیرو سے زیرو، جبکہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی زیرو سے ہیرو بن چکی ہیں۔ لیکن تینوں سیاسی جماعتیں کشمیر انتخابات کی بنیاد پر عوامی مقبولیت کا اندازہ نہ لگائیں۔ ہاں اگر کشمیر میں انتخابات کا رجحان بدلتا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف کے سر پر ایک بڑی ذمے داری ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اپوزیشن کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کےلیے، کشمیر میں ترقی کےلیے اور آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانے کےلیے۔ اب پی ٹی آئی ان ذمے داریوں کو کیسے انجام دے گی، یہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تیار کردہ کابینہ کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں