بے چاری ایپ ٹک ٹاک کا کیا قصور

پابندی ایپلی کیشن کے بجائے ایسے لوگوں پر لگنی چاہیے جو اس کا غلط استعمال کررہے ہیں


Shayan Tamseel July 02, 2021
ٹک ٹاک اور دیگر ایپلی کیشنز تفریحی اور تعمیری مقاصد کے لیے بنائی گئی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لگتا ہے ایک بے چاری معصوم سی موبائل ایپلی کیشن ہی ملک میں ''فحاشی اور بے حیائی'' پھیلانے کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ بن رہی ہے جو ملک کے ''شرفا'' ہزارہا پریشانیوں اور معاملات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، اور دیگر محرکات سے صرفِ نظر کرکے صرف اس ایک موبائل ایپ کو بند کرانے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

کیا کہا؟ کون سی موبائل ایپ؟ ارے بھئی وہی ''بدنام زمانہ'' ٹک ٹاک... جسے یہی شرفا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا کرتے ہیں اور جب دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ اخلاق باختہ مواد ہے جسے فوری طور پر ملک میں پابند کردینا چاہیے، تاکہ ہماری نوجوان نسل جسے ''جنس'' کے ج سے بھی واقفیت نہیں، بگڑنے سے بچ سکے، اور ملک میں جو فحاشی اور عریانی کا طوفان آیا ہوا ہے اس کے آگے بند باندھنے میں پیش رفت ہوسکے۔

اب کی بار جو سندھ ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر ایک ہفتے کی پابندی لگانے کا حکم صادر کیا ہے، اس پر سر پیٹ لینے کو جی کرتا ہے کہ کیا ملک کے دیگر مسائل ختم ہوگئے ہیں جو یہ ٹک ٹاک پر پابندی لگاؤ، پابندی ہٹاؤ ڈرامہ اب تک برقرار ہے۔

سننے میں آیا ہے کہ اس بار معزز عدلیہ کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کا یہ حکم ایک درخواست گزار کی جانب سے پٹیشن دائر کرنے کے بعد دیا گیا ہے جس میں درخواست گزار نے دیگر الزامات سمیت یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس ایپ کے ذریعے پاکستان میں 'ہم جنسی پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے'۔

چلیے جی یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ٹک ٹاک کی یہ ایپ ''فحاشی اور بے حیائی'' سمیت اب ''ہم جنس پرستی'' کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ ہم ان لغویات کے دیگر محرکات پر تو بحث بعد میں کریں گے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ جب یہ ایک ایپلی کیشن اتنے سارے ''جرائم'' کا ارتکاب کر رہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بار بار عدالتوں کی جانب سے ہی اس ایپ کو بار بار ''قید'' اور پھر دوبارہ ''آزاد'' کیا جارہا ہے؟ واضح رہے کہ رواں برس ہی پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے 11 مارچ کو ٹک ٹاک پر ان کمنٹس کے ساتھ پابندی عائد کی گئی تھی کہ ٹک ٹاک ویڈیوز سے معاشرے میں ''فحاشی'' پھیل رہی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پابندی کے حکم کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹک ٹاک پر پابندی کے عدالتی حکم پر کہا تھا کہ یہ ''ایک اور ایسا فیصلہ ہے جس کی پاکستان کے عوام بڑی قیمت چکائیں گے۔''

چلیے جی باقی باتیں بھی لازمی کریں گے لیکن پہلے ٹک ٹاک ایپلی کیشن کے ترجمان کی بھی سن لیتے ہیں۔

ٹک ٹاک کے ترجمان کی جانب سے حالیہ عدالتی پابندی کے بعد موقف پیش کیا گیا ہے کہ ''ٹک ٹاک کے پاس ٹھوس پالیسیاں موجود ہیں، جب کہ مواد کی خلاف ورزی سے متعلق ایکشن لینے کےلیے ٹیکنالوجی پر نظرثانی کا عمل بھی جاری ہے۔ ہم سب سے پہلے عدالتی کیس اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے واقف ہوئے اور اب اس کے مضمرات پر غور کیا جارہا ہے۔''

سوچنے کی بات ہے بھلا صرف ایک ایپلی کیشن ہی کیسے معاشرے میں ''فحاشی اور بے حیائی'' پھیلا رہی ہے؟ کیا اس ایپ میں مکمل برہنہ ویڈیوز پیش کی جاتی ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ایپ میں ذو معنی اور بے ہودہ قسم کے مناظر تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن مکمل عریاں مواد بہرحال نشر نہیں کیا جارہا۔ کیونکہ اس ایپ کی انتظامیہ نے ایسا مواد نشر کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ہاں یہ مکمل عریاں اور برہنہ مواد، جس سے ''پابندی لگانے کے خواہشمند'' بھی بخوبی واقف ہیں اور محظوظ ہوتے رہے ہیں، وہ تو اس ایپ کے بغیر بھی معاشرے میں ''رقصاں'' ہیں۔ اور جن موبائلز میں یہ ایپ استعمال کی جارہی ہے اس میں پہلے ہی ہماری ''معصوم'' نوجوان نسل نے یہ ''مواد'' محفوظ کیا ہوا ہے، جسے موبائل پر دہرے پاس ورڈز لگا کر تنہائی میں دیکھ کر محظوظ ہوا جاتا ہے، بلکہ دوستوں کی محافل میں باقاعدہ ''نمائش'' بھی کی جاتی ہے۔ اور اس ممنوعہ اور اخلاق باختہ مواد تک رسائی بھی اتنی ہی آسان ہے جتنا آپ کا پانچ سال کا بچہ دکان سے ٹافی خریدنے کا اہل ہے۔ پہلے تو یہ ''مواد'' موبائل کی دکان سے ہی چند روپوں میں ''میموری کارڈ فل'' کروا کر حاصل کیا جاتا تھا، لیکن اب تو دکان تک جانے کی بھی زحمت نہیں ہوتی۔ موبائل کمپنیوں نے انٹرنیٹ پیکیجز جو متعارف کروا رکھے ہیں، گھر بیٹھے ویب سائٹس پر جائیے اور جس قدر اور جس قسم کا چاہے ''مواد'' حاصل کیجئے۔ اور ان ویب سائٹس پر آپ کو ہم جنس پرستی پر مبنی مواد بھی باآسانی مل جاتا ہے۔ یعنی جس قسم اور مزاج کے استعمال کرنے والے ہیں، ویسی ہی ''چیز'' دستیاب ہے۔

تو جناب جب یہ سب انٹرنیٹ پر پہلے سے ہی دستیاب ہے، اور آپ کی نوجوان نسل اس سے محظوظ بھی ہورہی ہے تو پھر یہ ایک ایپلی کیشن کا ہی قصور کیوں ہوا؟ ڈائریکٹ انٹرنیٹ، موبائل اور کمپیوٹر پر ہی پابندی لگا دیجیے ناں۔ مکمل جڑ کا ہی خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ یہ جو پابندیاں لگانے کے شوقین افراد ہیں، انھوں نے کبھی اپنے بچوں کا موبائل خود چیک کیا ہے؟ کبھی یہ سوال کیا ہے کہ بچے نے اپنے موبائل میں پاس ورڈ کیوں لگا رکھا ہے؟ آخر ایسی کون سی ''پرائیویسی'' ہے جسے پاس ورڈ لگا کر دوسروں سے محفوظ رکھنا ہے؟ کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کے ویب براؤزر کی سرچ ہسٹری چیک کرتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال کہ آپ نے اپنے بچوں کو موبائل فون دے ہی کیوں رکھا ہے؟ کون سے بزنس چل رہے ہیں ان کے، جو موبائل ہونا لازمی ہے؟

ٹھیک ہے ہم کسی کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ نہیں دیں گے، لیکن ایک ایپلی کیشن کو برا کہنے والے اور پابندی کا مطالبہ کرنے والے کیا اس بات سے انکار کریں گے کہ ہر چیز کا مثبت اور منفی استعمال خود ہمارے ہاتھ میں ہے۔ صرف ٹک ٹاک ایپ ہی نہیں، اسی قبیل کی دیگر ایپلی کیشنز بھی تفریحی اور تعمیری مقاصد کے لیے پیش کی گئی ہیں، لیکن پھر بھی تمام قواعد و ضوابط ہونے کے باوجود بھی اگر استعمال کرنے والے کسی قسم کا بے ہودہ اور اخلاق باختہ مواد بنا کر نشر کررہے ہیں تو ایپلی کیشن سے پہلے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ اور اپنے خلاف تو ثبوت وہ خود ویڈیو کی صورت میں پیش کررہے ہیں۔ تو پھر کیا چیز قانون کو ایسے لوگوں کے خلاف حرکت میں آنے سے روک رہی ہے؟

ٹک ٹاک یا دوسری ایپلی کیشن کا جو مثبت استعمال ہے، اس کا تذکرہ ہم اپنے گزشتہ بلاگ میں بھی کرچکے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ٹک ٹاک: پابندی لگاؤ، پابندی ہٹاؤ

یہ بھی واضح کردیں کہ گزشتہ سال عالمی ادارہ صحت نے کورونا وبا کے دوران اس ایپلی کیشن پر باقاعدہ اکاؤنٹ بنا کر لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی تھی۔ جبکہ شوبز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنی والی مشہور شخصیات نے بھی ٹک ٹاک کے ذریعے کورونا سے بچاؤ کی مہم میں حصہ لیا اور بعض شخصیات نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے قرنطینہ کے ایام کی مصروفیات بھی شیئر کیں تاکہ عوام کو بھی حوصلہ مل سکے۔ یعنی ہم اس ایپلی کیشن سے مثبت کام بھی لے سکتے ہیں۔ تو پھر یہ ایپ کیسے بری ہوئی؟ برے تو وہ لوگ ہوئے جو ایک اچھی چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ایسے غلط لوگوں کے خلاف قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ پابندی ایپ کے بجائے ایسے لوگوں پر لگنی چاہیے۔

اور اب برسبیل تذکرہ وہ نکتہ بھی چھیڑ ہی دیتے ہیں کہ اس ایپ کے ذریعے پاکستان میں 'ہم جنسی پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے'۔ میرے خیال میں درخواست گزار نے یا تو تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے یا پھر واقعی وہ بہت معصوم اور بے خبر ہیں۔ ہمارے ملک میں ہم جنس پرستی ''جرم'' ہونے کے باوجود جس نہج پر پہنچی ہوئی ہے اس کےلیے کسی ایپ کے ذریعے ''مزید فروغ'' دینے کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اور اس کے منفی اور بھیانک اثرات بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ قصور اسکینڈل، ڈارک ویب اسکینڈل، بچوں کے جنسی استحصال اور زیادتی کے واقعات اب زبان زد عام ہیں۔ مدارس اور تعلیمی اداروں میں اس قبیح فعل کے جو واقعات پیش آئے، ان پر چلیے ہم آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ ایسا ہمارے ملک میں نہیں ہوتا، لیکن کیا درخواست گزار قبائلی علاقوں خاص کر خیبرپختونخوا کے ''بچہ پوشوں'' کا بھی علم نہیں رکھتے۔ کیا انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ملک میں جو ہزار ہا ٹرک ڈرائیور لانگ روٹ کے مسافر ہیں وہ اپنے ساتھ ایک نوعمر لڑکا کس مقصد کے تحت رکھتے ہیں۔ سپر ہائی ویز پر بنے ہوٹلوں میں کام کرنے والے ''چھوٹے'' رات میں مسافروں کو کون سی سروس فراہم کررہے ہوتے ہیں؟ درخواست گزار کو شاید اتنا بھی علم نہیں کہ خوانین اور وڈیروں میں خوبصورت اور کم سن لڑکوں کو بھاری معاوضہ پر باقاعدہ ملازم رکھا جاتا ہے اور ان ''بڑوں'' میں باقاعدہ یہ مقابلہ ہوتا ہے کہ کس کا ''بچہ'' زیادہ خوبصورت اور کم عمر ہے۔ چلیے آپ ان سب عوامل سے بے خبر ہیں لیکن جب آپ موبائل کا استعمال کر ہی رہے ہیں تو ان ''ڈیٹنگ ایپلی کیشن'' سے تو یقیناً واقف ہوں گے جہاں نہ صرف لڑکے اور لڑکیاں بلکہ لڑکے آپس میں ''باہمی دلچسپی کے مقاصد'' کے لیے نجی ملاقات کا اہتمام کرسکتے ہیں۔

خدارا خواب غفلت سے جاگ جائیے۔ محض یہ ایک موبائل ایپلی کیشن ہی آپ کے معاشرے میں ''فحاشی اور بے حیائی'' نہیں پھیلا رہی اور ہم جنس پرستی کے فروغ کا ذریعہ نہیں بن رہی۔ بلکہ کئی دیگر عوامل اور برائیاں پہلے سے اس معاشرے میں موجود ہیں، جن کے خاتمے اور حقیقی پابندی کی ضرورت ہے۔ صرف ایک موبائل ایپ پر پابندی لگا کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر مثبت نتائج حاصل کرنے ہیں تو مکمل فعال ہونا ہوگا۔ ان محرکات کا خاتمہ کرنا ہوگا جو معاشرے میں برائی کی اصل جڑ ہیں۔ ورنہ ایک ہفتے بعد یہ پابندی ختم ہوجائے اور کچھ عرصے بعد پھر کوئی درخواست گزار صرف ''سنی سنائی'' پر اس ایپلی کیشن کے خلاف عدالت پہنچ جائے گا، یہ جانے بغیر کہ فحاشی اور بے حیائی کی یہ آگ تو ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر کی دہلیز تک لے آئے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں